ETV Bharat / international

Hindu Marriage Act اسلام آباد میں اقلیتی افراد اپنی شادیاں مروجہ رسومات پر کرسکیں گے

اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے ہندو میرج ایکٹ 2017 کے قوانین کو مطلع کر دیا گیا ہے۔ جس کے تحت ہندو برادری کے افراد کو ان کی اپنی رسومات کے مطابق اپنی شادی کی تقریبات کر سکیں گے۔ ہندو شادی کے قواعد کی منظوری کے لیے بنیادی کوششیں نیشنل لابنگ ڈیلیگیشن فار منارٹی رائٹس کی جانب سے کی گئی۔

Etv Bharat
Etv Bharat
author img

By

Published : Apr 7, 2023, 7:37 PM IST

اسلام آباد: پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی انتظامیہ نے ہندو میرج ایکٹ 2017 کے قواعد 5 سال سے بھی زائد عرصے کے بعد نوٹیفائی کردیے، جس کے نتیجے میں اقلیتی ارکان اپنی شادیاں مروجہ رسومات کے عین مطابق کر سکیں گے۔ ڈان کی رپورٹ کے مطابق 'اسلام آباد کیپٹل ٹریٹری ہندو میریج رولز 2023‘کے عنوان سے جاری نوٹیفکیشن کی بدولت پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بھی 2017 میں منظور ہونے والے ایکٹ کے نفاذ کے لیے راہ ہموار ہوگئی ہے۔اسلام آباد انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ وفاقی دارالحکومت کے تمام یونین کونسلوں کو نوٹیفکیشن بھیج دیا گیا ہے تاکہ اس پر عمل درآمد ہو۔

قواعد کے مطابق اسلام آباد کی متعلقہ یوسیز ایک مہاراج رجسٹر کریں گے جو شادیوں کے لیے پنڈت یا مہاراج کا انتظام کریں گے، جو ہندو مذہب کی آگاہی رکھنے والا مرد ہوگا۔ مقامی پولیس کی جانب سے کیریکٹر سرٹیفیکیٹ کے حصول کے ساتھ ساتھ ہندو برادری کے کم ازکم 10 ارکان کی تحریری منظوری کے بعد 'مہاراج' کا تقرر ہوگا۔مسلمانوں کے رجسٹرڈ نکاح خواں کی طرح یوسیز مہاراج کو’شادی پرت’ (شادی کا سرٹیفکیٹ) جاری کریں گی جو متعلقہ یوسیز میں شادی رجسٹر کرے گا، تمام شادیاں یونین کونسلز میں رجسٹرڈ ہوں گی۔

قواعد کے مطابق میریج ایکٹ کے تحت مقرر 'مہاراج' حکومت کی مقررہ فیس کے علاوہ شادی کے امور پر پیسے نہیں لے گا، ’مہاراج‘ کے انتقال یا اس کے لائسنس کی منسوخی کی صورت میں ان کے پاس رکھا ہوا ریکارڈ متعلقہ یوسیز میں جمع کرادیا جائے گا جو ان کے بعد مقرر ہونے والے کے سپرد کر دیا جائے گا۔قواعد کا سیکشن 7 شادی کے خاتمے یا دوبارہ شادی سے متعلق ہے، قواعد میں اسلام آباد میں رہنے والے ہندو افراد کو شادی میں کسی تنازع کی صورت میں ویسٹ پاکستان فیملی کورٹ ایکٹ 1964 کے تحت عدالت سے رجوع کرنے کی اجازت ہوگی۔

قواعد کا ڈرافٹ تیار کرنے والے اسلام آباد انتظامیہ کے ضلعی اٹارنی محفوظ پراچا نے ڈان کو بتایا کہ اقلیتی برادری کا حق یقینی بنانے کے لیے نوٹیفکیشن ’اہم اقدام‘ تھا۔انہوں نے کہا کہ اب پنجاب، بلوچستان اور خیبرپختونخوا بھی ان قواعد کو اپنا سکتے ہیں۔محفوظ پراچا نے کہا کہ ’سیاسی اور ٹیکنیکلی صوبوں کے لیے اسلام آباد میں نافذ کیا گیا قانون نافذ کرنا آسان ہے بجائے اس کے کہ ہر سطح پر نئی قانون سازی کی جائے۔

ہندو شادی کے قواعد کی منظوری کے لیے بنیادی کوششیں ’نیشنل لابنگ ڈیلیگیشن فار منارٹی رائٹس‘ (این ایل ڈی) نے کی ہیں۔ این ایل ڈی کے رکن جے پرکاش کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں بڑی تعداد میں ہندو مستقل طور پر رہائش پذیر ہیں اور یہ ضروری تھا کہ اسلام آباد کی انتظامیہ مقامی برادری کے فائدے کے لیے اس قانون پر عمل درآمد کرتی۔رپورٹ کے مطابق سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا سے سیکیورٹی خدشات کے باعث ہجرت کی وجہ سے اسلام آباد میں گزشتہ دہائی میں ہندو برادری کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: Allahabad HC on Hindu Marriage Act حکومت ہندو میریج ایکٹ میں ضروی ترامیم پر غور کرے، الہ باد ہائی کورٹ

یو این آئی

اسلام آباد: پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی انتظامیہ نے ہندو میرج ایکٹ 2017 کے قواعد 5 سال سے بھی زائد عرصے کے بعد نوٹیفائی کردیے، جس کے نتیجے میں اقلیتی ارکان اپنی شادیاں مروجہ رسومات کے عین مطابق کر سکیں گے۔ ڈان کی رپورٹ کے مطابق 'اسلام آباد کیپٹل ٹریٹری ہندو میریج رولز 2023‘کے عنوان سے جاری نوٹیفکیشن کی بدولت پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بھی 2017 میں منظور ہونے والے ایکٹ کے نفاذ کے لیے راہ ہموار ہوگئی ہے۔اسلام آباد انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ وفاقی دارالحکومت کے تمام یونین کونسلوں کو نوٹیفکیشن بھیج دیا گیا ہے تاکہ اس پر عمل درآمد ہو۔

قواعد کے مطابق اسلام آباد کی متعلقہ یوسیز ایک مہاراج رجسٹر کریں گے جو شادیوں کے لیے پنڈت یا مہاراج کا انتظام کریں گے، جو ہندو مذہب کی آگاہی رکھنے والا مرد ہوگا۔ مقامی پولیس کی جانب سے کیریکٹر سرٹیفیکیٹ کے حصول کے ساتھ ساتھ ہندو برادری کے کم ازکم 10 ارکان کی تحریری منظوری کے بعد 'مہاراج' کا تقرر ہوگا۔مسلمانوں کے رجسٹرڈ نکاح خواں کی طرح یوسیز مہاراج کو’شادی پرت’ (شادی کا سرٹیفکیٹ) جاری کریں گی جو متعلقہ یوسیز میں شادی رجسٹر کرے گا، تمام شادیاں یونین کونسلز میں رجسٹرڈ ہوں گی۔

قواعد کے مطابق میریج ایکٹ کے تحت مقرر 'مہاراج' حکومت کی مقررہ فیس کے علاوہ شادی کے امور پر پیسے نہیں لے گا، ’مہاراج‘ کے انتقال یا اس کے لائسنس کی منسوخی کی صورت میں ان کے پاس رکھا ہوا ریکارڈ متعلقہ یوسیز میں جمع کرادیا جائے گا جو ان کے بعد مقرر ہونے والے کے سپرد کر دیا جائے گا۔قواعد کا سیکشن 7 شادی کے خاتمے یا دوبارہ شادی سے متعلق ہے، قواعد میں اسلام آباد میں رہنے والے ہندو افراد کو شادی میں کسی تنازع کی صورت میں ویسٹ پاکستان فیملی کورٹ ایکٹ 1964 کے تحت عدالت سے رجوع کرنے کی اجازت ہوگی۔

قواعد کا ڈرافٹ تیار کرنے والے اسلام آباد انتظامیہ کے ضلعی اٹارنی محفوظ پراچا نے ڈان کو بتایا کہ اقلیتی برادری کا حق یقینی بنانے کے لیے نوٹیفکیشن ’اہم اقدام‘ تھا۔انہوں نے کہا کہ اب پنجاب، بلوچستان اور خیبرپختونخوا بھی ان قواعد کو اپنا سکتے ہیں۔محفوظ پراچا نے کہا کہ ’سیاسی اور ٹیکنیکلی صوبوں کے لیے اسلام آباد میں نافذ کیا گیا قانون نافذ کرنا آسان ہے بجائے اس کے کہ ہر سطح پر نئی قانون سازی کی جائے۔

ہندو شادی کے قواعد کی منظوری کے لیے بنیادی کوششیں ’نیشنل لابنگ ڈیلیگیشن فار منارٹی رائٹس‘ (این ایل ڈی) نے کی ہیں۔ این ایل ڈی کے رکن جے پرکاش کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں بڑی تعداد میں ہندو مستقل طور پر رہائش پذیر ہیں اور یہ ضروری تھا کہ اسلام آباد کی انتظامیہ مقامی برادری کے فائدے کے لیے اس قانون پر عمل درآمد کرتی۔رپورٹ کے مطابق سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا سے سیکیورٹی خدشات کے باعث ہجرت کی وجہ سے اسلام آباد میں گزشتہ دہائی میں ہندو برادری کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: Allahabad HC on Hindu Marriage Act حکومت ہندو میریج ایکٹ میں ضروی ترامیم پر غور کرے، الہ باد ہائی کورٹ

یو این آئی

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.