تہران: ایران میں مہسا امینی کی موت کے چالیس دن مکمل ہونے پر مہسا کی قبر پر سینکڑوں حجاب مخالف مظاہرین جمع ہوئے۔ ایرانی سکیورٹی فورسز کی جانب سے سخت حفاظتی اقدامات کو نظر انداز کرکے سینکڑوں خواتین مہسا کی قبر پر جمع ہوئیں۔ ذرائع کے مطابق مہسا امینی کے آبائی شہر ساقیز میں مظاہرین پر ایرانی سکیورٹی فورسز نے گولیاں چلائیں اور آنسو گیس کے گولے بھی داغے۔Iran anti hijab protests
-
خواندن سرود کُردی "تنهایم نگذارید" بر سر مزار ژینا امینی#مهسا_امینی #ژینا_امینی#mahsaamini pic.twitter.com/kdCYy31Fzc
— Hengaw Human Rights Organization (@HengawO) October 26, 2022 " class="align-text-top noRightClick twitterSection" data="
">خواندن سرود کُردی "تنهایم نگذارید" بر سر مزار ژینا امینی#مهسا_امینی #ژینا_امینی#mahsaamini pic.twitter.com/kdCYy31Fzc
— Hengaw Human Rights Organization (@HengawO) October 26, 2022خواندن سرود کُردی "تنهایم نگذارید" بر سر مزار ژینا امینی#مهسا_امینی #ژینا_امینی#mahsaamini pic.twitter.com/kdCYy31Fzc
— Hengaw Human Rights Organization (@HengawO) October 26, 2022
کردستان میں حقوق کی خلاف ورزیوں پر نظر رکھنے والے ناروے میں مقیم ایک تنظیم ہینگاو نے ٹویٹر پر لکھا کہ ایرانی سکیورٹی فورسز نے ساقیز شہر کے زندان اسکوائر میں لوگوں پر آنسو گیس اور گولیاں چلائی ہیں۔ آن لائن شیئر کی گئی ویڈیوز میں عورت، زندگی، آزادی اور آمر کو موت کے نعرے لگاتے ہوئے سینکڑوں مرد و خواتین نے مغربی صوبے کردستان میں امینی کے آبائی شہر ساقیز کی قبرستان میں نعرے لگائے۔
یہ بھی پڑھیں: Human Rights Group On Iran Protest ایرانی مظاہروں کے دوران اب تک 244 ہلاک، 12500 گرفتار، انسانی حقوق گروپ کا دعوی
واضح رہے کہ کرد نژاد 22 سالہ مہسا امینی 16 ستمبر کو اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ تہران جارہی تھی، لیکن اسی دوران خواتین کے اسلامی لباس کوڈ کی خلاف ورزی کرنے کے الزام میں ایران کی اخلاقی پولیس کے ہاتھوں گرفتاری کے تین دن بعد انتقال کر گئیں۔ اس کے بعد ملک بھر میں حجاب مخالف مظاہرے شروع ہوگئے۔ انسانی حقوق کے گروپ نے دعوی کیا کہ احتجاجی مظاہروں کے دوران اب تک 244 مظاہرین کی ہلاکت ہو چکی ہے جبکہ 12 ہزار سے زائد مظاہرین کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ یہ دعوی ایک انسانی حقوق گروپ سے متعلق ایک نئی سائٹ اور خبر رساں ادارے HRANA نے دی ہے۔