ETV Bharat / international

Iran Protests یورپی یونین کی قانون ساز نے بھی ایرانی خواتین کی حمایت میں اپنے بال کاٹ دیے - ایرانی خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی

ایرانی پولیس کی حراست میں مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد ملک میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ دریں اثناء خاتون رکن پارلیمنٹ عبیر السحلانی نے ایرانی خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے یورپی پارلیمنٹ میں بحث کے دوران اپنے بال کاٹے۔ اس کے علاوہ آسکر ایوارڈ یافتہ ماریون کوٹلارڈ اور جولیٹ بنوشے سمیت دیگر اداکاراؤں اور موسیقاروں نے بھی ایران میں خواتین کی حمایت میں اپنے بال کٹوانے کی ویڈیوز پوسٹ کی ہیں۔ Iran protests

EU lawmaker cuts off her hair in support of Iran protests
یورپی یونین کی قانون ساز نے بھی ایرانی خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی میں اپنے بال کاٹ دیے
author img

By

Published : Oct 5, 2022, 10:19 PM IST

برسلز: مہسا امینی کی موت کے بعد ملک میں جاری احتجاج کے دوران ایرانی خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے پارلیمنٹ میں بحث کے دوران ایک یورپی قانون ساز نے اپنے بال کاٹ ڈالے۔ اسٹراسبرگ میں یورپی یونین کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے سویڈن کی سیاست دان عبیر السحلانی نے کہا کہ ہم، عوام اور یورپی یونین کے شہری، ایران میں مردوں اور عورتوں کے خلاف تمام تشدد کو غیر مشروط اور فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جب تک ایران کی خواتین آزاد نہیں ہو جاتیں، ہم آپ کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ عبیر السحلانی نے یورپی پارلیمنٹ کے اراکین کے سامنے اپنے بال کاٹتے ہوئے یہ بات کہی۔Iran Protests

  • Traditionen att klippa av sig håret i protest är tusenårig.
    Den visar att ilskan är starkare än förtryckarens makt.
    Irans kvinnor har fått nog.
    EU borde visa samma mod och ge dem fullt stöd. pic.twitter.com/0FdMB9XoXu

    — AbirAlsahlani (@AbirAlsahlani) October 4, 2022 " class="align-text-top noRightClick twitterSection" data=" ">

ناروے میں قائم گروپ ایران ہیومن رائٹس (IHR) کی غیر سرکاری تنظیم کے مطابق، مہسا امینی کی ہلاکت پر ملک گیر احتجاج میں اب تک 100 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ایرانی اسکول کی طالبات اور خواتین بڑی تعداد میں اپنے حجاب اتار کر اور امینی کی موت کے خلاف احتجاج میں ریلیاں نکال رہی ہیں۔ حکومت مخالف نعرے لگاتے ہوئے کئی خواتین نے اپنے بال بھی کاٹ رہے ہیں۔ یورپی پارلیمنٹ کے رکن عبیر السحلانی نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران کی خواتین نے تین ہفتوں سے مسلسل ہمت کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ آزادی کی آخری قیمت اپنی جانوں سے ادا کر رہی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اب بہت ہوگیا، اب بولنے کا وقت ہے، عمل کرنے کا وقت ہے۔ ایران میں حکومتوں کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ نہ تاریخ اور نہ ہی اللہ تعالیٰ آپ کو معاف کرے گا۔ انسانیت کے خلاف جرائم جو آپ اپنے ہی لوگوں کے خلاف کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

Iran Anti Hijab Protests ایران کے سپریم لیڈر خامنہ ای نے مظاہروں کے لیے اسرائیل اور امریکہ کو مورد الزام ٹھہرایا

Iran Restricts Internet مہسا امینی کی موت پر مظاہروں میں شدت کے بعد ایران نے انٹرنیٹ پر پابندی لگا دی

Turkish Singer chops off hair ایرانی خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی، ترک گلوکارہ نے اسٹیج پر ہی بال کاٹ دیے

Mahsa Amini Death Protest پرتشدد مظاہرین کے ساتھ فیصلہ کن انداز میں نمٹا جائے، ایرانی صدر

دراصل 22 سالہ مہسا امینی 13 ستمبر کو تہران میں ایران کی اخلاقی پولیس کے ہاتھوں سخت ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار کر لی گئی لیکن وہ بعد میں حراستی مرکز میں گرنے کے فوراً بعد کوما میں چلی گئی اور حکام کے مطابق تین دن بعد دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئی۔ اس کی موت کے بعد سے، ہزاروں افراد ملک بھر میں حکومت مخالف مظاہروں میں شامل ہو چکے ہیں۔ سکیورٹی فورسز نے بعض اوقات براہ راست گولہ بارود سے جواب دیا ہے، اور مظاہروں میں بہت سے لوگ ہلاک، زخمی اور حراست میں لیے گئے ہیں۔

پچھلے ہفتے، اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گٹیرس نے کہا تھا کہ وہ ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی خبروں سے فکر مند ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ واقعات کو قریب سے دیکھ رہے ہیں، اور انہوں نے سکیورٹی فورسز سے مطالبہ کیا کہ وہ غیر ضروری یا غیر متناسب طاقت کا استعمال بند کریں۔ احتجاج پر اپنی خاموشی توڑتے ہوئے، ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے پیر کو ملک میں جاری احتجاج کا ذمہ دار امریکہ اور اسرائیل کو ٹھہرایا۔ تہران میں ایک گریجویشن تقریب سے خطاب کرتے ہوئے خامنہ ای نے کہا کہ وہ پولیس کی حراست میں 22 سالہ لڑکی کی موت سے دل شکستہ ہیں۔ تاہم، انہوں نے ایران کو غیر مستحکم کرنے کی غیر ملکی سازش کے طور پر احتجاج کی شدید مذمت کی۔

انھوں نے کہا کہ جو حادثہ پیش آیا اس سے ہمیں بھی تکلیف ہوئی لیکن اس پر عوامی ردعمل بغیر کسی تحقیق کے ہو رہا ہے، جہاں کچھ لوگ سڑکوں کو غیر محفوظ بنانے، قرآن کو جلانے، حجاب والی خواتین کے حجاب اتارنے اور مساجد کو نذر آتش کرنے پر آگئے اور یہ کوئی فطری ردعمل نہیں تھا۔ خامنہ ای نے ایران کو غیر مستحکم کرنے کی غیر ملکی کوشش قرار دیا اور کہا کہ اگر امینی کی موت نہ ہوتی تو ملک کو غیر مستحکم کرنے کے لیے کوئی دوسرا بہانہ تلاش کیا جاتا۔

برسلز: مہسا امینی کی موت کے بعد ملک میں جاری احتجاج کے دوران ایرانی خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے پارلیمنٹ میں بحث کے دوران ایک یورپی قانون ساز نے اپنے بال کاٹ ڈالے۔ اسٹراسبرگ میں یورپی یونین کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے سویڈن کی سیاست دان عبیر السحلانی نے کہا کہ ہم، عوام اور یورپی یونین کے شہری، ایران میں مردوں اور عورتوں کے خلاف تمام تشدد کو غیر مشروط اور فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جب تک ایران کی خواتین آزاد نہیں ہو جاتیں، ہم آپ کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ عبیر السحلانی نے یورپی پارلیمنٹ کے اراکین کے سامنے اپنے بال کاٹتے ہوئے یہ بات کہی۔Iran Protests

  • Traditionen att klippa av sig håret i protest är tusenårig.
    Den visar att ilskan är starkare än förtryckarens makt.
    Irans kvinnor har fått nog.
    EU borde visa samma mod och ge dem fullt stöd. pic.twitter.com/0FdMB9XoXu

    — AbirAlsahlani (@AbirAlsahlani) October 4, 2022 " class="align-text-top noRightClick twitterSection" data=" ">

ناروے میں قائم گروپ ایران ہیومن رائٹس (IHR) کی غیر سرکاری تنظیم کے مطابق، مہسا امینی کی ہلاکت پر ملک گیر احتجاج میں اب تک 100 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ایرانی اسکول کی طالبات اور خواتین بڑی تعداد میں اپنے حجاب اتار کر اور امینی کی موت کے خلاف احتجاج میں ریلیاں نکال رہی ہیں۔ حکومت مخالف نعرے لگاتے ہوئے کئی خواتین نے اپنے بال بھی کاٹ رہے ہیں۔ یورپی پارلیمنٹ کے رکن عبیر السحلانی نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران کی خواتین نے تین ہفتوں سے مسلسل ہمت کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ آزادی کی آخری قیمت اپنی جانوں سے ادا کر رہی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اب بہت ہوگیا، اب بولنے کا وقت ہے، عمل کرنے کا وقت ہے۔ ایران میں حکومتوں کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ نہ تاریخ اور نہ ہی اللہ تعالیٰ آپ کو معاف کرے گا۔ انسانیت کے خلاف جرائم جو آپ اپنے ہی لوگوں کے خلاف کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

Iran Anti Hijab Protests ایران کے سپریم لیڈر خامنہ ای نے مظاہروں کے لیے اسرائیل اور امریکہ کو مورد الزام ٹھہرایا

Iran Restricts Internet مہسا امینی کی موت پر مظاہروں میں شدت کے بعد ایران نے انٹرنیٹ پر پابندی لگا دی

Turkish Singer chops off hair ایرانی خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی، ترک گلوکارہ نے اسٹیج پر ہی بال کاٹ دیے

Mahsa Amini Death Protest پرتشدد مظاہرین کے ساتھ فیصلہ کن انداز میں نمٹا جائے، ایرانی صدر

دراصل 22 سالہ مہسا امینی 13 ستمبر کو تہران میں ایران کی اخلاقی پولیس کے ہاتھوں سخت ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار کر لی گئی لیکن وہ بعد میں حراستی مرکز میں گرنے کے فوراً بعد کوما میں چلی گئی اور حکام کے مطابق تین دن بعد دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئی۔ اس کی موت کے بعد سے، ہزاروں افراد ملک بھر میں حکومت مخالف مظاہروں میں شامل ہو چکے ہیں۔ سکیورٹی فورسز نے بعض اوقات براہ راست گولہ بارود سے جواب دیا ہے، اور مظاہروں میں بہت سے لوگ ہلاک، زخمی اور حراست میں لیے گئے ہیں۔

پچھلے ہفتے، اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گٹیرس نے کہا تھا کہ وہ ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی خبروں سے فکر مند ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ واقعات کو قریب سے دیکھ رہے ہیں، اور انہوں نے سکیورٹی فورسز سے مطالبہ کیا کہ وہ غیر ضروری یا غیر متناسب طاقت کا استعمال بند کریں۔ احتجاج پر اپنی خاموشی توڑتے ہوئے، ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے پیر کو ملک میں جاری احتجاج کا ذمہ دار امریکہ اور اسرائیل کو ٹھہرایا۔ تہران میں ایک گریجویشن تقریب سے خطاب کرتے ہوئے خامنہ ای نے کہا کہ وہ پولیس کی حراست میں 22 سالہ لڑکی کی موت سے دل شکستہ ہیں۔ تاہم، انہوں نے ایران کو غیر مستحکم کرنے کی غیر ملکی سازش کے طور پر احتجاج کی شدید مذمت کی۔

انھوں نے کہا کہ جو حادثہ پیش آیا اس سے ہمیں بھی تکلیف ہوئی لیکن اس پر عوامی ردعمل بغیر کسی تحقیق کے ہو رہا ہے، جہاں کچھ لوگ سڑکوں کو غیر محفوظ بنانے، قرآن کو جلانے، حجاب والی خواتین کے حجاب اتارنے اور مساجد کو نذر آتش کرنے پر آگئے اور یہ کوئی فطری ردعمل نہیں تھا۔ خامنہ ای نے ایران کو غیر مستحکم کرنے کی غیر ملکی کوشش قرار دیا اور کہا کہ اگر امینی کی موت نہ ہوتی تو ملک کو غیر مستحکم کرنے کے لیے کوئی دوسرا بہانہ تلاش کیا جاتا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.