ETV Bharat / international

Crackdown on PTI پی ٹی آئی کے خلاف کریک ڈاؤن، عام انتخابات میں عمران خان کو شکست دینے کی حکمت عملی

عمران خان کی گرفتاری کے خلاف ملک میں نو مئی کو ہونے والے پرتشدد واقعات موجودہ حکومت کے لے بڑے پیمانے پر پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف کاروائی کا باعث بنی۔ جس کی وجہ سے اب مجوزہ عام انتخابات میں عمران خان کو شکست دینے کی حکمت عملی کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے۔

Etv Bharat
Etv Bharat
author img

By

Published : May 28, 2023, 3:10 PM IST

اسلام آباد: ملک میں 9 مئی کے تشدد کے بعد بڑے پیمانے پر گرفتاریوں، عدالتی مقدمات، انسداد دہشت گردی قوانین کے تحت کارروائی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر مکمل پابندی کی بات کرکے حکومت پاکستان اپنے پرانے دشمن عمران خان کو اکتوبر میں ہونے والے مجوزہ عام انتخابات جیتنے سے روکنے کے لیے اپنی حکمت عملی میں کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

سینیئر سیاسی تجزیہ کار عدنان شوکت نے کہا کہ اگر آپ دیکھیں کہ کس طرح عمران خان کے لیے حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے اور پھر مکمل طور پر ختم ہوگئے، تو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان کو ان کی سیاسی مناسبت سے نہ صرف الگ تھلگ کر دیا گیا ہے، بلکہ سیاسی طاقت کے لحاظ سے بھی الگ تھلگ رہ گئے ہیں کیونکہ ان کی پارٹی کے تقریباً تمام رہنماؤں نے پارٹی سے علیحدگی اور عمران خان سے علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے۔

سیاسی تجزیہ کار نے کہا کہ پاکستان میں طاقت کی سیاست کا سیاسی تناظر بدل رہا ہے۔ پی ٹی آئی تیزی سے ایسے منتخب پارٹی ارکان کو کھو رہی ہے جن کا ووٹ بینک مضبوط تھا اور جنہوں نے پہلے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن جیتا تھا۔ اس کے علاوہ جہانگیر ترین کی قیادت میں ایک اور نئے سیاسی گروپ کی تشکیل کا عمل بھی جاری ہے۔ کیونکہ عمران خان کی پارٹی کے تقریباً تمام ارکان اب جہانگیر ترین گروپ کا رخ کر رہے ہیں۔

عمران خان کی سیاست صوبہ پنجاب کو کنٹرول کرنے پر مرکوز تھی، تاہم اب اس کا امکان کم دکھائی دیتا ہے کیونکہ وہ پارٹی میں تنہا رہ گئے ہیں۔ باقی سب، جو پنجاب میں ان کے لیے الیکشن جیت سکتے تھے وہ بھی انہیں چھوڑ رہے ہیں ہے۔ عمران خان کی فوج مخالف کہانی اور نئے آرمی چیف اور دیگر سینئر حاضر سروس انٹیلی جنس افسران کے خلاف الزامات کی وجہ سے اپنے پاؤں میں گولی مار لی۔ انھوں نے سیاسی حریفوں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کو نہ صرف انہیں اور ان کی پارٹی کے خلاف کاروائی کرنے کا موقع دیا بلکہ انہیں اب ملکی سیاست سے ہٹانے پر بھی غور کیا جارہا ہے۔

شوکت نے کہا کہ عمران خان کبھی بھی نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے حق میں نہیں تھے۔ انہوں نے ہی انہیں 'لائن کراس کرنے' پر آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے سے ہٹایا تھا۔ عمران خان کا لاہور سے راولپنڈی تک لانگ مارچ کا مقصد ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈالنا تھا کہ وہ جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف نہ بنائیں لیکن اب چونکہ جنرل عاصم منیر آرمی چیف ہیں اس لیے انہوں نے عمران خان کے لیے تمام دروازے اور کھڑکیاں بند کرنے کو یقینی بنا رہے ہیں۔

9 مئی اب یوم سیاہ بن چکا ہے، نہ صرف اس لیے کہ یہ عمران خان کے پی ٹی آئی کے کارکنوں نے جی ایچ کیو، جناح ہاؤس اور ملک کے دیگر حساس مقامات پر حملے کیے تھے، بلکہ اس لیے بھی کہ اسے اس دن کے طور پر بھی یاد رکھا جائے گا جب فوجی اسٹیبلشمنٹ نے دوبارہ اپنی طاقت کا استعمال کیا اور ملک کے مقبول ترین لیڈر اور مقبول ترین پارٹی کو ختم کر کے ملک پر اپنی مضبوط گرفت کو عیاں کیا۔

پی ٹی آئی کے کھلے عام بے نقاب ہونے کے بعد اب ایسا لگتا ہے کہ حکمران حکومت کے لیے راستہ صاف ہے کہ وہ اکتوبر میں ملک بھر میں نہ صرف انتخابات کرائے بلکہ موجودہ نمائندگی اور حکومت میں حصہ داری برقرار رکھتے ہوئے ایک اور مخلوط حکومت بنانے کا بھی دعویٰ کر سکتی ہے۔ عمران خان بھلے ہی اپنی مقبولیت کی ریٹنگ برقرار رکھیں، لیکن ایک شخص کی مقبولیت ان کے لیے اتنی نہیں ہو سکتی کہ وہ پنجاب، خیبرپختونخوا یا یہاں تک کہ وفاقی حکومت میں بھی فتح کا دعویٰ کر سکیں، کیونکہ منتخب سیاستدانوں کی ٹیم کے بغیر ایک مقبول شخصیت سیاسی تخت کو کنٹرول نہیں کر سکتی۔

اسلام آباد: ملک میں 9 مئی کے تشدد کے بعد بڑے پیمانے پر گرفتاریوں، عدالتی مقدمات، انسداد دہشت گردی قوانین کے تحت کارروائی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر مکمل پابندی کی بات کرکے حکومت پاکستان اپنے پرانے دشمن عمران خان کو اکتوبر میں ہونے والے مجوزہ عام انتخابات جیتنے سے روکنے کے لیے اپنی حکمت عملی میں کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

سینیئر سیاسی تجزیہ کار عدنان شوکت نے کہا کہ اگر آپ دیکھیں کہ کس طرح عمران خان کے لیے حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے اور پھر مکمل طور پر ختم ہوگئے، تو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان کو ان کی سیاسی مناسبت سے نہ صرف الگ تھلگ کر دیا گیا ہے، بلکہ سیاسی طاقت کے لحاظ سے بھی الگ تھلگ رہ گئے ہیں کیونکہ ان کی پارٹی کے تقریباً تمام رہنماؤں نے پارٹی سے علیحدگی اور عمران خان سے علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے۔

سیاسی تجزیہ کار نے کہا کہ پاکستان میں طاقت کی سیاست کا سیاسی تناظر بدل رہا ہے۔ پی ٹی آئی تیزی سے ایسے منتخب پارٹی ارکان کو کھو رہی ہے جن کا ووٹ بینک مضبوط تھا اور جنہوں نے پہلے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن جیتا تھا۔ اس کے علاوہ جہانگیر ترین کی قیادت میں ایک اور نئے سیاسی گروپ کی تشکیل کا عمل بھی جاری ہے۔ کیونکہ عمران خان کی پارٹی کے تقریباً تمام ارکان اب جہانگیر ترین گروپ کا رخ کر رہے ہیں۔

عمران خان کی سیاست صوبہ پنجاب کو کنٹرول کرنے پر مرکوز تھی، تاہم اب اس کا امکان کم دکھائی دیتا ہے کیونکہ وہ پارٹی میں تنہا رہ گئے ہیں۔ باقی سب، جو پنجاب میں ان کے لیے الیکشن جیت سکتے تھے وہ بھی انہیں چھوڑ رہے ہیں ہے۔ عمران خان کی فوج مخالف کہانی اور نئے آرمی چیف اور دیگر سینئر حاضر سروس انٹیلی جنس افسران کے خلاف الزامات کی وجہ سے اپنے پاؤں میں گولی مار لی۔ انھوں نے سیاسی حریفوں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کو نہ صرف انہیں اور ان کی پارٹی کے خلاف کاروائی کرنے کا موقع دیا بلکہ انہیں اب ملکی سیاست سے ہٹانے پر بھی غور کیا جارہا ہے۔

شوکت نے کہا کہ عمران خان کبھی بھی نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے حق میں نہیں تھے۔ انہوں نے ہی انہیں 'لائن کراس کرنے' پر آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے سے ہٹایا تھا۔ عمران خان کا لاہور سے راولپنڈی تک لانگ مارچ کا مقصد ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈالنا تھا کہ وہ جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف نہ بنائیں لیکن اب چونکہ جنرل عاصم منیر آرمی چیف ہیں اس لیے انہوں نے عمران خان کے لیے تمام دروازے اور کھڑکیاں بند کرنے کو یقینی بنا رہے ہیں۔

9 مئی اب یوم سیاہ بن چکا ہے، نہ صرف اس لیے کہ یہ عمران خان کے پی ٹی آئی کے کارکنوں نے جی ایچ کیو، جناح ہاؤس اور ملک کے دیگر حساس مقامات پر حملے کیے تھے، بلکہ اس لیے بھی کہ اسے اس دن کے طور پر بھی یاد رکھا جائے گا جب فوجی اسٹیبلشمنٹ نے دوبارہ اپنی طاقت کا استعمال کیا اور ملک کے مقبول ترین لیڈر اور مقبول ترین پارٹی کو ختم کر کے ملک پر اپنی مضبوط گرفت کو عیاں کیا۔

پی ٹی آئی کے کھلے عام بے نقاب ہونے کے بعد اب ایسا لگتا ہے کہ حکمران حکومت کے لیے راستہ صاف ہے کہ وہ اکتوبر میں ملک بھر میں نہ صرف انتخابات کرائے بلکہ موجودہ نمائندگی اور حکومت میں حصہ داری برقرار رکھتے ہوئے ایک اور مخلوط حکومت بنانے کا بھی دعویٰ کر سکتی ہے۔ عمران خان بھلے ہی اپنی مقبولیت کی ریٹنگ برقرار رکھیں، لیکن ایک شخص کی مقبولیت ان کے لیے اتنی نہیں ہو سکتی کہ وہ پنجاب، خیبرپختونخوا یا یہاں تک کہ وفاقی حکومت میں بھی فتح کا دعویٰ کر سکیں، کیونکہ منتخب سیاستدانوں کی ٹیم کے بغیر ایک مقبول شخصیت سیاسی تخت کو کنٹرول نہیں کر سکتی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.