اسلام آباد: سپریم کورٹ میں وزیراعظم شہباز شریف، مریم نواز ، وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور اسپیکر اسمبلی راجہ پرویز اشرف کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کردی گئی۔ سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں سیکرٹری خزانہ کو بھی درخواست میں فریق بنایا گیا ہے، دائر درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ مذکورہ حکومتی شخصیات نے سپریم کورٹ کے 4 اپریل کےحکم کی توہین کی، جس میں عدالت نے الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے دینے کا حکم صادر کیا تھا۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف،مریم نواز، اسحاق ڈار کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔ درخواست میں اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف اور سیکرٹری خزانہ کے خلاف بھی کارروائی کی استدعا کی گئی ہے۔ وہیں دوسری جانب قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے بھی پنجاب اور خیر پختونخوا میں انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کو فنڈز دینے کا بل مسترد کردیا ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس چیئرمین سلیم مانڈوی والا کے بیرون ملک ہونے کے باعث دلاور عباس کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کرانے کیلیے فنڈ کے بل پر غور کیا گیا جو بعد ازاں کثرت رائے سے مسترد کر دیا گیا۔
وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے اجلاس کے شرکا کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کو مالی مشکلات کا سامنا ہے۔ آئی ایم ایف سے ڈیل کے مطابق فنڈز محدود ہیں۔ خسارے پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں اس لیے فنڈز کی گنجائش نہیں۔ حکومتی سینیٹر مصدق ملک نے کہا کہ قائمہ کمیٹی خزانہ سینیٹ کے ماتحت ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ایوان اپنے فیصلے دے چکے ہیں۔ جو بل ابھی نوٹیفائی نہیں ہوا اس پر ایکشن لیا جا رہا ہے۔ انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ خود بھی 90 دن میں الیکشن نہیں کرا پا رہی۔ حکومت 90 دن میں الیکشن نہ کروائے تو سزا، لیکن سپریم کورٹ بھی تو یہی کر رہی ہے۔ ہٹ دھرمی کے فیصلوں سے ریاست نہیں چلائی جاسکتی۔ صرف پنجاب کیلیے امتیازی سلوک سے چھوٹے صوبے متاثرہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں:
فیصل سبز واری نے کہا کہ سپریم کورٹ کے پاس الیکشن کو 120 دن میں کرنے کا اختیار نہیں۔ خیبرپختونخوا کے الیکشن کا کچھ پتہ نہیں۔ پریشان ہوتا ہوں جب مجھے کابینہ تنخواہ نہیں دیتی۔ جب تنخواہ بڑھائیں تو خبر بن بنتی ہے لیکن جب کابینہ اراکین کو تنخواہ نہیں ملے تو خبر نہیں چلتی۔ تحریک انصاف کے سینیٹر محسن عزیز نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کا بل کبھی سینیٹ میں نہیں دیکھا۔ اس بل کے خلاف ہوں، یہ سینیٹ کا دائرہ کار ہی نہیں ہے۔ اس بل کو سینیٹ میں لانے کی ضرورت ہی نہیں۔ اس قانون سازی میں حکومت کی نیت ٹھیک نہیں۔
سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ میٹرو چلانے کے لیے 18 ارب روپے جاری کیے گئے لیکن الیکشن کے لیے رقم نہیں، اگر ہمارے پاس صرف 21 ارب روپے نہیں تو ملک دیوالیہ ہے۔ سینیٹ کا یہ بل چور کھڑکی سے منظور کرایا گیا۔ تمام اراکین کی رائے کے بعد سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے الیکشن کمیشن کو فنڈز دینے کا بل متفقہ طور پر مسترد کردیا اس کے ساتھ ہی پنجاب اور کے پی میں الیکشن کے لیے اضافی فنڈز کی فراہمی کا بل بھی مسترد کر دیا گیا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ بھی اس بل کو مسترد کرچکی ہے۔ (یو این آئی مشمولات کے ساتھ)