ہفتہ کو پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب اسمبلی میں شدید ہنگامہ آرائی ہوئی Commotion in Punjab Assembly of Pak یہاں تک کہ ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری پر لوٹے بھی پھینکے گئے۔ پی ٹی آئی ارکان پر الزام ہے کہ انہوں نے اسپیکر پر ہاتھ بھی اٹھائے۔ سیکیورٹی اہلکاروں نے ڈپٹی اسپیکر کو کسی طرح محفوظ کرنے میں کامیاب رہے، پاکستانی میڈیا کے مطابق پنجاب کے نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے پنجاب قانون ساز اسمبلی کا اجلاس طلب کیا گیا تھا، اور اسی دوران یہ واقعہ پیش آیا۔
ذرائع کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی کی آمد کے باعث پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہنگامہ آرائی میں تبدیل ہوگیا۔ نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے تقریباً 11.30 بجے اجلاس شروع ہوا تھا، لیکن ہنگامہ آرائی کے باعث اسے ملتوی کر دیا گیا۔ دونوں پارٹیوں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی جس کے بعد پی ٹی آئی ارکان نے اپوزیشن بنچ پر لوٹا بھی پھینکے۔
قابل ذکر ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کے حکم کے بعد پنجاب میں نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے اجلاس بلایا گیا تھا۔ الیکشن میں مقابلہ پاکستان کے نو منتخب وزیر اعظم شہباز شریف کے بیٹے حمزہ شہباز اور مسلم لیگ ق کے چوہدری پرویز الٰہی کے درمیان ہے۔ اجلاس کی صدارت دوست محمد مزاری نے کی۔ پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی اپنے ساتھ لوٹا لے کر آئے تھے۔ وہ زور زور سے لوٹا لوٹا چلانے لگے دراصل یہ ان رہنماؤں پر طنز تھا جنہوں نے عمران کی پارٹی چھوڑ کر اپوزیشن کا ساتھ دیا تھا، جس کے بعد ہنگامہ بڑھ گیا۔ جس کے بعد معاملہ مار پیٹ تک پہنچ گیا، جس کے بعد اسمبلی کی کارروائی ملتوی کر دی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: Resignations of PTI MNAs: قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 123 ارکان اسمبلی کا استعفیٰ منظور
حمزہ شہباز مسلم لیگ ن اور اتحادی جماعتوں کے امیدوار ہیں جبکہ پرویز الہٰی کو اپنی جماعت ق لیگ کے ساتھ پی ٹی آئی کی حمایت بھی حاصل ہے۔ پرویز الہٰی کی جانب سے 189 ارکان کی حمایت کا دعویٰ سامنے آیا ہے جبکہ حمزہ شہباز شریف نے 200 سے زائد ارکانِ اسمبلی کی حمایت کا دعویٰ کیا ہے۔ حمزہ شہباز کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے ناراض گروپ اور پیپلز پارٹی کی حمایت انہیں حاصل ہے۔
پنجاب اسمبلی 371 ارکان پر مشتمل ہے، جبکہ پنجاب کا وزیرِ اعلیٰ بننے کے لیے 186 ووٹ درکار ہیں۔ موجودہ اسمبلی میں پاکستان تحریکِ انصاف کے 183 ارکان ہیں، مسلم لیگ ن کے ارکان کی تعداد 166 ہے، مسلم لیگ ق کے 10 ارکان ہیں، پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد 7 ہے۔ آزاد ارکان کی تعداد 4 ہے جبکہ راہِ حق پارٹی کا ایک رکن ہے۔