واشنگٹن: صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ یہ اعلان کرنے کی تیاری کر رہی ہے کہ وہ اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے لیے ایک قومی حکمت عملی تیار کرے گی۔ اس معاملے پر بریفنگ دینے والے لوگوں کے مطابق، امریکہ غزہ پر اسرائیل کی فوجی کارروائی کی حمایت کر رہا ہے، جس کے بعد مسلم امریکی کمیونٹی میں بہت سے لوگوں کی طرف سے امریکہ کے اسلامو فوبیا سے متعلق حکمت عملی پرشکوک و شبہات ہیں۔ نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر نیوز ایجنسی اے پی کو تین لوگوں نے بتایا کہ وائٹ ہاؤس کا یہ اعلان اصل میں گزشتہ ہفتے اس وقت متوقع تھا جب بائیڈن نے مسلم رہنماؤں سے ملاقات کی تھی، لیکن اس میں تاخیر ہوئی تھی۔ ان میں سے دو کا کہنا تھا کہ تاخیر کی وجہ مسلم امریکی کمیونٹی کے خدشات ہیں، کیونکہ امریکی انتظامیہ اسرائیل کی فوج کی بھرپور حمایت کررہا ہے۔ اس لیے امریکہ پر اس مسئلے پر اعتبار کا فقدان ہے۔
مئی میں انتظامیہ کی جانب سے سام دشمنی سے نمٹنے کے لیے ایک قومی حکمت عملی جاری کی گئی تھی۔ اس میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا مقابلہ کرنے کا حوالہ بھی دیا گیا تھا۔ اسلامو فوبیا کے خلاف حکمت عملی کا آغاز مہینوں سے متوقع تھا۔ توقع ہے کہ باضابطہ حکمت عملی کو رسمی شکل دینے میں کئی ماہ لگیں گے۔
-
There is no room for antisemitism in America.
— The White House (@WhiteHouse) October 21, 2023 " class="align-text-top noRightClick twitterSection" data="
There is no room for Islamophobia in America.
There is no room for hate of any form in America. pic.twitter.com/6pYtnt9Ii4
">There is no room for antisemitism in America.
— The White House (@WhiteHouse) October 21, 2023
There is no room for Islamophobia in America.
There is no room for hate of any form in America. pic.twitter.com/6pYtnt9Ii4There is no room for antisemitism in America.
— The White House (@WhiteHouse) October 21, 2023
There is no room for Islamophobia in America.
There is no room for hate of any form in America. pic.twitter.com/6pYtnt9Ii4
7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے عسکریت پسندوں کے اچانک حملے کے بعد سے امریکہ اور بیرون ملک یہودی اور مسلم مخالف نفرت کے واقعات آسمان چھو رہے ہیں۔ سب سے نمایاں حملوں میں سے ایک 6 سالہ ودیہ الفیوم کا قتل اور اس کی والدہ کا ایک حملے میں زخمی ہونا تھا۔ جسے استغاثہ نے اسلامو فوبیا سے تعبیر کیا ہے۔ اس نفرت انگیزی پر امریکی صدر نے کہا تھا کہ "نفرت کے اس ہولناک عمل کی امریکہ میں کوئی جگہ نہیں ہے اور یہ ہماری بنیادی اقدار کے خلاف ہے۔ ہم کیسے عبادت کرتے ہیں، ہم کیا مانتے ہیں، اور ہم کون ہیں،اس خوف سے آزادی ہونا چاہیئے،"
اس معاملے سے واقف ایک چوتھے شخص کے مطابق، اسلاموفوبیا کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک قومی حکمت عملی کی ضرورت پر مسلم امریکی کمیونٹی کے درمیان بڑے پیمانے پر اتفاق پایا جاتا ہے، انھوں نے مزید کہا کہ اسرائیل اور حماس کی جنگ نے وائٹ ہاؤس کے اعلان کے وقت کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ جس شخص نے نیوز ایجنسی کو یہ جانکاری دی ہے، اسے عوامی طور پر بات کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ اس شخس کے مطابق بائیڈن انتظامیہ ان دونوں مسائل کو الگ الگ رکھنا چاہتی ہے، جبکہ کچھ ممتاز مسلم امریکی گروپ انہیں باہم منسلک سمجھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: فلسطینی بچے کے قتل کیس میں ملزم نے خود کو بے قصور بتایا
شکاگو میں انر سٹی مسلم ایکشن نیٹ ورک کے بانی، رامی ناشاشیبی نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ کے اہلکاروں نے گزشتہ ہفتے مذہبی رہنماؤں کے ایک چھوٹے سے گروپ کے ساتھ ملاقات کے دوران اشارہ کیا تھا کہ اسلامو فوبیا مخالف حکمت عملی کے لیے چیزیں "کام کر رہی ہیں"۔ میٹنگ میں شریک عہدیداروں نے اشارہ کیا کہ وہ آنے والے دنوں اور ہفتوں میں کمیونٹی کے اضافی اسٹیک ہولڈرز سے ملاقات کریں گے۔ناشاشیبی نے کہا کہ جب تک کہ صدر اور انتظامیہ کے اہلکارغزہ میں اسرائیلی کارروائی کی مذمت نہیں کرتے، ایسی کوشش مسلم کمیونٹی کے ساتھ "ڈیڈ آن ارائول" ہو جائے گی۔