لندن: حکمران کنزرویٹو پارٹی کو ایک ہفتے میں برطانیہ کا نیا وزیر اعظم تلاش کرنا پڑے گا، کیونکہ لز ٹرس نے جمعرات کو ڈرامائی انداز میں حکومت کے سربراہ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ انہوں نے صرف 45 دن خدمات انجام دیں جو کہ کسی بھی برطانوی وزیر اعظم کی مختصر ترین مدت ہے۔ اپنے دفتر ڈاؤننگ اسٹریٹ سے ٹرس نے اعلان کیا کہ میں اس مینڈیٹ کی پاسداری نہیں کرسکی جس کے لیے مجھے کنزرویٹو پارٹی نے منتخب کیا تھا۔ درحقیقت اب برطانیہ کو ساڑھے تین ماہ کے اندر تیسرا وزیراعظم مل جائے گا۔ یہ برطانیہ کی تاریخ کا ایک ناقابل یقین اور بے مثال واقعہ ہے۔New UK PM
ٹرس نے کہا کہ وہ 1922 کی کمیٹی کے چیئرمین سر گراہم بریڈی سے متفق ہیں کہ قیادت کا انتخاب ایک ہفتے کے اندر مکمل کیا جائے۔ یہ کمیٹی کنزرویٹو پارٹی میں اندرونی انتخابات کرواتی ہے۔ ایک ہفتے میں نئے وزیر اعظم کے انتخاب کا مطلب یہ ہے کہ ووٹنگ کنزرویٹو ایم پیز تک ہی محدود ہو سکتی ہے۔
لندن میں قیاس آرائیاں عروج پر ہیں کہ ہندوستانی نژاد سابق چانسلر رشی سونک، جو وزیراعظم کی ریس میں لز ٹرس سے ہار گئے تھے، نے ایک بار پھر وزیراعظم کے عہدے کے لیے منتخب ہوسکتے ہیں، تاہم ان کی جانب سے ابھی تک اس کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ انہوں نے یقینی طور پر اپنی پارٹی کے اندر دشمن بنائے ہیں کیونکہ انہوں نے سابق وزیر اعظم بورس جانسن کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور وہ اپنی شکست کے بعد سے خاموش ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
Who is Rishi Sunak: رشی سُنک کون ہیں جو برطانیہ کے اگلے وزیراعظم ہوسکتے ہیں؟
Liz Truss resigns برطانوی وزیراعظم لزٹرس کا استعفی
سونک کے علاوہ سکریٹری برائے دفاع پینی مورڈانٹ، ہاؤس آف کامنز کے رہنما بین والیس اور یہاں تک کہ جانسن بھی وزیراعظم کی ریس میں ہیں۔ والیس نے قیادت کے لیے انتخاب لڑنے سے انکار کر دیا تھا۔ پینی مورڈانٹ نے کہا کہ وہ ابھی خوموش رہیں گی'۔ ایک اور ہندوستانی نژاد شخصیت سویلا بریورمین، جنہوں نے بدھ کو ہوم سکریٹری کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا، کے بھی وزیراعظم بننے کے خواب ہو سکتے ہیں۔
بی بی سی نے رپورٹ کیا کہ موجودہ چانسلر جیریمی ہنٹ وزارت عظمیٰ کے لیے انتخاب نہیں لڑیں گے۔ جانسن نے سونک کے خلاف لزٹرس کی حمایت کی تھی۔ افواہ یہ تھی کہ جانسن نے ایسا اس لیے کیا تھا کیونکہ وہ ان کی حدود کو جانتے تھے اور اس امید پر کہ جلد ہی ٹرس پھنس جائیں گے، اس کے بعد ان کی واپسی کی راہ ہموار ہوجائے گی۔
وہیں اپوزیشن لیبر پارٹی کے رہنما اور ان کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار سر کیر اسٹارمر نے فوری عام انتخابات کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ کنزرویٹو پارٹی نے ظاہر کیا ہے کہ اس کے پاس حکومت کرنے کا مینڈیٹ نہیں ہے۔