سوما خلیل کا کہنا ہے کہ 'ہم عورتیں گھر کے اندر اور باہر دونوں جگہ کام کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شرم کی بات نہیں ہے، ہم یہاں پر کباب بناتے ہیں اور 12 گھنٹے مستقل کام کرتے ہیں۔
عراق جیسے مشرق وسطیٰ کے ممالک میں ریستوران میں کام کرنا مردوں کا کام تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں پر خواتین کا ریستوران میں کام کرنے کا تصور نہیں ہے۔
ملک میں جاری مالی بحران کے باعث روزگار کی کافی کمی آگئی ہےجس کے باعث یونیورسٹیز سے تعلیم مکمل کرکے نکلنے والی خواتین ریستوزان میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔
شالا خلیل محمد نامی اس دوشیزہ نے حال ہی میں ہلبجا یونیورسٹی کے فوڈ انڈسٹری ڈپارٹمنٹ سے تعلیم مکمل کی ہے ، کورس کی تکمیل کے بعد انہوں نے 'تونی بابا کباب ریستوران' میں کباب شیف کی حیثیت سے کام کرنا شروع کیا۔
شالا خلیل کا کہنا ہے کہ 'ہمیں اپنی اور اپنے خاندان کی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لیے روزگار کی ضرورت تھی، لیکن خطے میں جاری مالی بحران کے باعث ملازمت کے مواقع نا کے برابر ہیں۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ ہر جگہ خواتین کو ملازمت فراہم کی جائے تاکہ وہ اپنی ذمہ داری خود اٹھا سکیں۔
شالا خلیل کا کہنا ہے کہ ان پر کام کا کافی دباؤ رہتا ہے، لیکن گاہک ان کے بنائے ہوئے کباب کافی پسند کرتے ہیں۔
سوما اور شالا خلیل کی کہانی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ خواتین گھر کی باورچی خانہ کی طرح رستوران میں بھی اپنی پیشہ وارانہ ہنر کا مظاہرہ کر سکتی ہیں۔