دنیا کی سب سے طاقتور ملک اور تحفظ کے علم بردار امریکہ نے یہاں انسانی حقوق کے تحفظ کا وعدہ کیا لیکن اس ملک کی حالت بد سے بدتر ہوگئی ہے۔ امریکہ اپنی اس ذمہ داری کو دیانتداری سے ادا کرنے میں کامیاب نہیں رہا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے شمالی شام سے امریکی فوج واپس لینے کے فیصلے کے بعد ترکی کو شام کے کرد اکثریت علاقے پر فوجی کارروائی کرنے کا موقع مل گیا جس کے سبب وہاں خوفناک صورت حال پیدا ہوگئے۔ کرد جسے ابھی تک امریکہ کی حمایت حاصل تھی وہ اب اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے ایک انتہائی خوف ناک صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ کرد اب شام کے حکمران اسد سے مدد کی توقع کر رہے ہیں۔
حالانکہ ٹرمپ نے ترکی کو دھمکی دی تھی کہ وہ مالی پابندیاں عائد کرے گا۔ امریکہ نے ترکی کے ساتھ معاہدہ کیا تھا، جس میں یہ شرط رکھی تھی کہ کردوں کو ترکی کی سرحدوں سے ہٹانے کے لیے شمالی شام میں پانچ دنوں تک جنگ بندی کا نفاذ کیا جائے گا، ساتھ میں ترکی کی پہلے سے ہی کمزور معیشیت پر کسی بھی قسم کی مالی پابندی عائد نہیں کی جائےگی۔
ترکی کو خوشی ہے کہ امریکہ نے شام کی فوج (نیشنل ڈیموکریٹک فورس) کو جنوبی شام کی سرحد سے 20 کلومیٹر دور رکھنے والی شرط کو قبول کرلی ہے۔ وہیں امریکہ کا دعوی ہے کہ کرد عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے یہ صحیح اقدام ہے، لیکن حقیقت میں یہ اقدام داعش کی سرگرمیوں کو بڑھاوا ہی دے گا۔
شام کو فرانس سے آزادی ملے ہوئے سات صدی کا وقت گزر گیا ہے۔ شام میں کردوں کی خاص بات یہ ہےکہ وہ سب سے بڑے نسلی گروہ ہیں لیکن ان کا کوئی الگ ملک نہیں ہے۔ ان کی آبادی ایران، ترکی، عراق ، شام اور شمالی شام تک پھیلی ہوئی ہے۔ سنہ 2011 میں شروع ہوئی عرب اسپرنگ (عرب بہاریہ) جس نے متعدد ممالک میں عوامی تحریک کی شکل اختیار کی تھی، اس تحریک سے شام کو سخت تشدد اور خانہ جنگی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
جب شام میں حزب اختلاف نے اسد کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے تحریک کی تب متعدد عرب ممالک، یوروپ، ترکی، امریکہ، اسرائیل نے ان کی حمایت کی تھی۔ شام کی حکومت جو مشکل صورت حال کا سامنا کر رہی تھی اسے حزب اللہ، ایران اور روس کی حمایت حاصل تھی۔ وہیں اسد نے دھمکی دی تھی کہ اگر بیرونی ممالک نے شام میں مداخلت کرنے کی کوشش کی تو وہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کرے گا اور کسی حد تک کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کرکے شام کے عوام کو نشانہ بنایا بھی گیا۔ اس سلسلے میں اقوام متحدہ اور دنیا کے دیگر ممالک نے صرف اس کی مذمت کی ہے لیکن اس کے خلاف کوئی خاص قدم نہیں اٹھایا گیا جو کہ شرمناک ہے۔
ٹرمپ اپنے آئندہ انتخابات کے پیش نظر سابق صدر اوبامہ کی غلطیوں کو دوہرانا نہیں چاہتے ہیں۔ لیکن جنگ کے بعد کی تباہی سے ہر طبقہ متاثر ہوتا ہے۔
وہیں لنڈسے گراہم نے ٹرمپ کی حکمت عملی کو اوبامہ کے فیصلے سے زیادہ خطرناک قرار دیا ہے۔ اور کسی حد تک یہ صحیح بھی ہے۔ امریکہ کی طرف سے کیے گئے جلد بازی والے فیصلوں کی وجہ سے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ پی کے کے جس کی بنیاد سنہ 1948 میں اس مقصد سے رکھی گئی تھی کہ کرد کو ایک آزاد ملک بنایا جائے گا۔ پی کے کے کی حمایت سے، ڈیموکریٹیک یونین پارٹی (پی وائی ڈی) نے شام میں کرد پارٹی کی حیثیت حاصل کی۔
وہیں امریکہ نے آئی ایس آئی ایس کی انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے کرد جنگجوؤں اور سیریئن ڈیموکریٹک فورس (ایس ڈی ایف) کو مزید ہتھیار فراہم کرنے کا فیصلہ کیا۔ این ڈی ایف نے ترکی کی سرحدوں میں خود مختار کونسل کی تشکیل کرکے ہزاروں آئی ایس کے انتہا پسندوں کو قید کیا، لیکن امریکہ کا ایک بار کردوں کے ساتھ اپنی ضرورت پورا ہونے کے بعد ٹرمپ ترکی کی حمایت میں شامل ہوجائے گا، جو ناٹو کا رکن بھی ہے۔
ترکی چاہتا ہے کہ اس کی سرحد سے 50 کلومیٹر کے احاطے سے شام کی فوجیں دور رہیں اور اگر ترکی کی اس بات کو مان لیا جاتا ہے تو کرد جنگجوؤں کے قید میں آئی ایس کے دہشت گردوں کو آزاد کردیا جائے گا، کیا ہوگا اگر آئی ایس کو پھر سے طاقت حاصل ہوجائے گی اور کیا ہوگا اگر دوبار قتل عام کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ طاقتور ممالک کی مفاد پرستی پر مبنی سیاست کی