ETV Bharat / international

امریکہ کا ترکی کے خلاف اقتصادی پابندی کا اعلان - ترکی پر پابندی کا احکامات

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ شام میں کرد جنگجوؤں اور شہریوں پر ترکی کے حملے کے ردعمل میں ترکی پر اقتصادی پابندی کے احکامات جاری کردیے ہیں۔

Trump orders Turkey sanctions;
author img

By

Published : Oct 15, 2019, 8:52 AM IST


امریکی انتظامیہ نے ترکی سے جلد شام میں کردوں پر حملے روکنے کی اپیل کی ہے اور جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔

دراصل گزشتہ ہفتے شمالی شام سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد ترکی پر کردوں پر حملے آغاز کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں تاحال درجنوں افراد مارے گئے ہیں اور لاکھوں شہری بے گھر ہوئے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق امریکی نائب صدر مائک پینس اور قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ او برائن جلد ہی ترکی کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کرنے کے لیے انقرہ کا دورہ کرنے والے ہیں۔

امریکی نائب صدر مائک پینس نے پیر کے روز وائٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ نے براہ راست ترک صدر رجب طیب اردوگان سے بات چیت کی، جنھوں نے سرحدی علاقہ کوبانی میں حملے نہ کرنے کی یقین دہائی کرائی ہے۔

مائک پینس نے کہا کہ امریکی صدر نے واضح طور پر ترکی کو جنگ روکنے کے لیے کہا ہے اور کرد جنگجوؤں سے مذاکرات بحال کرنے کی اپیل کی ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ نے ترکی کے خلاف جاری نئے فرمان میں کہا ہے کہ وہ ترکی کے ساتھ 100 بلین ڈالر کے تجارتی معاہدے پر بات چیت روک رہے ہیں اور اسٹیل کے نرخوں کو 50 فیصد تک بڑھا رہے ہیں۔

ٹرمپ نے ترکی کے تین اعلی عہدیداروں اور ترکی کی دفاعی اور توانائی کی وزارتوں پر بھی پابندیاں عائد کردی ہیں۔

ٹرمپ نے کہا: 'اگر ترکی کے رہنما اس خطرناک اور تباہ کن راستہ کو جاری رکھتے ہیں تو میں ترکی کی معیشت کو تیزی سے تباہ کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہوں۔'

وزارت خزانہ کے سکریٹری اسٹیون منوچن نے کہا کہ پابندیوں سے ترکی کی کمزور معیشت کو نقصان پہنچے گا۔

پینس نے کہا کہ امریکی پابندیوں کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا، جب تک کہ ترکی جنگ بندی قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا، یہاں تک وہ مذاکرات کی میز پر آجائے اور تشدد کو ختم کرے۔

دراصل شام سے فوج کے انخلا کے معاملے پر صدر ٹرمپ تنقید کی زد میں بھی ہیں اور اُن پر الزام ہے کہ انہوں نے گزشتہ ہفتے شمالی شام سے امریکی فوج کے انخلا کا اعلان کر کے ترکی کو کردوں پر حملہ کرنے کا گرین سگنل دیا ہے۔

یاد رہے کہ شمالی شام میں کرد طویل عرصے سے امریکہ کی سرپرستی میں داعش کے جنگجوؤں کے خلاف لڑ رہے تھے اور انہوں نے شام کے ایک وسیع حصے میں اپنی حکومت قائم کرنے والے جنگجوؤں کو شکست دی تھی۔ تاہم گزشتہ ہفتے صدر ٹرمپ کے فوج کے انخلا کے اعلان کے بعد کرد امریکی صدر کے فیصلے پر نکتہ چینی کر رہے ہیں۔

ادھر کردوں نے شامی حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ کرلیا ہے جس کے تحت سرکاری فوجی دستے ترک جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے شمال کی جانب پیش قدمی کر رہے ہیں۔

عالمی خبر رساں ادارے 'اے پی' کی رپورٹ میں ایک شامی کرد عہدے دار کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ روس کے ذریعے طے پانے والے اس معاہدے کے تحت شام کی سرکاری فورسز کردوں کے زیر کنٹرول قصبوں کی طرف جا سکتی ہیں جہاں سے امریکہ اپنے فوجی نکال رہا ہے۔

شام کے شمالی علاقوں میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران پیدا ہونے والی صورت حال کے بعد ایک لاکھ سے زائد افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔ جب کہ موجودہ صورت حال پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے بند کمرہ کے اجلاس میں تشویش کا بھی اظہار کیا گیا تھا۔


امریکی انتظامیہ نے ترکی سے جلد شام میں کردوں پر حملے روکنے کی اپیل کی ہے اور جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔

دراصل گزشتہ ہفتے شمالی شام سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد ترکی پر کردوں پر حملے آغاز کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں تاحال درجنوں افراد مارے گئے ہیں اور لاکھوں شہری بے گھر ہوئے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق امریکی نائب صدر مائک پینس اور قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ او برائن جلد ہی ترکی کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کرنے کے لیے انقرہ کا دورہ کرنے والے ہیں۔

امریکی نائب صدر مائک پینس نے پیر کے روز وائٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ نے براہ راست ترک صدر رجب طیب اردوگان سے بات چیت کی، جنھوں نے سرحدی علاقہ کوبانی میں حملے نہ کرنے کی یقین دہائی کرائی ہے۔

مائک پینس نے کہا کہ امریکی صدر نے واضح طور پر ترکی کو جنگ روکنے کے لیے کہا ہے اور کرد جنگجوؤں سے مذاکرات بحال کرنے کی اپیل کی ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ نے ترکی کے خلاف جاری نئے فرمان میں کہا ہے کہ وہ ترکی کے ساتھ 100 بلین ڈالر کے تجارتی معاہدے پر بات چیت روک رہے ہیں اور اسٹیل کے نرخوں کو 50 فیصد تک بڑھا رہے ہیں۔

ٹرمپ نے ترکی کے تین اعلی عہدیداروں اور ترکی کی دفاعی اور توانائی کی وزارتوں پر بھی پابندیاں عائد کردی ہیں۔

ٹرمپ نے کہا: 'اگر ترکی کے رہنما اس خطرناک اور تباہ کن راستہ کو جاری رکھتے ہیں تو میں ترکی کی معیشت کو تیزی سے تباہ کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہوں۔'

وزارت خزانہ کے سکریٹری اسٹیون منوچن نے کہا کہ پابندیوں سے ترکی کی کمزور معیشت کو نقصان پہنچے گا۔

پینس نے کہا کہ امریکی پابندیوں کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا، جب تک کہ ترکی جنگ بندی قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا، یہاں تک وہ مذاکرات کی میز پر آجائے اور تشدد کو ختم کرے۔

دراصل شام سے فوج کے انخلا کے معاملے پر صدر ٹرمپ تنقید کی زد میں بھی ہیں اور اُن پر الزام ہے کہ انہوں نے گزشتہ ہفتے شمالی شام سے امریکی فوج کے انخلا کا اعلان کر کے ترکی کو کردوں پر حملہ کرنے کا گرین سگنل دیا ہے۔

یاد رہے کہ شمالی شام میں کرد طویل عرصے سے امریکہ کی سرپرستی میں داعش کے جنگجوؤں کے خلاف لڑ رہے تھے اور انہوں نے شام کے ایک وسیع حصے میں اپنی حکومت قائم کرنے والے جنگجوؤں کو شکست دی تھی۔ تاہم گزشتہ ہفتے صدر ٹرمپ کے فوج کے انخلا کے اعلان کے بعد کرد امریکی صدر کے فیصلے پر نکتہ چینی کر رہے ہیں۔

ادھر کردوں نے شامی حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ کرلیا ہے جس کے تحت سرکاری فوجی دستے ترک جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے شمال کی جانب پیش قدمی کر رہے ہیں۔

عالمی خبر رساں ادارے 'اے پی' کی رپورٹ میں ایک شامی کرد عہدے دار کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ روس کے ذریعے طے پانے والے اس معاہدے کے تحت شام کی سرکاری فورسز کردوں کے زیر کنٹرول قصبوں کی طرف جا سکتی ہیں جہاں سے امریکہ اپنے فوجی نکال رہا ہے۔

شام کے شمالی علاقوں میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران پیدا ہونے والی صورت حال کے بعد ایک لاکھ سے زائد افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔ جب کہ موجودہ صورت حال پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے بند کمرہ کے اجلاس میں تشویش کا بھی اظہار کیا گیا تھا۔

Intro:Body:Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.