ETV Bharat / international

طالبان اپنے سابق گڑھ قندھار پر بھی قابض

غیر ملکی خبر ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امریکی فوج کے مکمل انخلا سے قبل ہی طالبان نے اپنی مہم کے تحت افغانستان کے دیہی علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا ہے۔

طالبان اپنے سابق گڑھ قندھار پر بھی قابض
طالبان اپنے سابق گڑھ قندھار پر بھی قابض
author img

By

Published : Jul 5, 2021, 11:00 AM IST

افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء کے عمل کے آخری مرحلے کے دوران طالبان نے افغان اضلاع پر قبضہ جاری رکھنے کی مہم کے تحت اپنے پرانے گڑھ قندھار پر بھی قبضہ کرلیا ہے۔ یہ غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ میں دی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق تالبان نے افغانستان میں قندھار کے اہم اور اپنے سابق گڑھ سمجھے جانے والے صوبے پر افغان فورسز کے ساتھ شدید جھڑپ کے بعد دوبارہ قبضہ کر لیا ہے، جو امریکی فوج کے انخلا کے اعلان کے بعد تازہ پیش رفت ہے اور طالبان کی اہم کامیابی سمجھی جارہی ہے۔

غیر ملکی خبر ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امریکی فوج کے مکمل انخلا سے قبل ہی طالبان نے اپنی مہم کے تحت افغانستان کے دیہی علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کردیا ہے جو رواں برس سے مئی سے جاری ہے۔

طالبان نے قندھار کے جنوب میں واقع ضلع پنجوائی پر امریکی فوج اور نیٹو کی جانب سے کابل کے قریب واقع بگرام ائیر بیس خالی کرنے کے محض دو دن بعد قبضہ کرلیا ہے، جہاں سے امریکہ دو دہائیوں تک طالبان اور القاعدہ کے خلاف کارروائیاں کرتا رہا۔

رپورٹ کے مطابق صوبائی دارالحکومت کی اہمیت کے پیش نظر پنجوائی اور اطراف میں قبضے کے لیے افغان فورسز اور طالبان کے درمیان تصادم ہوتا رہا ہے۔

واضح رہے کہ قندھار وہ علاقہ ہے جہاں طالبان کی بنیاد رکھی گئی اور شریعت کی سختی سے پابندی کے ساتھ انہوں نے یہاں پر حکمرانی کی جب تک 2001 میں امریکہ نے یہاں حملے نہیں شروع کردیے تھے۔

پنجوائی کے گورنر ہستی محمد نے کہا ہے کہ افغان فورسز اور طالبان کے درمیان رات بھر تصادم ہوا، جس کے نتیجے میں سرکاری فورسز کو علاقہ چھوڑنا پڑا۔ انہوں نے غیر ملکی میڈیا کو بتایا کہ طالبان ضلع پولیس ہیڈکوارٹرز اور گورنر کے دفتر کی عمارت پر قبضہ کر چکے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق قندھار کی صوبائی کونسل کے سربراہ سید جان خاکریوال نے تصدیق کی کہ وہ ضلع پنجوائی گنوا بیٹھے ہیں لیکن الزام عائد کیا کہ سرکاری فورسز جان بوجھ کر علاقے سے دست بردار ہوئی ہیں۔

رپورٹس کے مطابق حالیہ ہفتوں میں افغانستان کے مختلف صوبوں میں جھڑپیں جاری ہیں اور طالبان نے ملک کے 400 میں سے 100 اضلاع پر قبضے کا دعویٰ کیا ہے۔ افغان حکام نے طالبان کے دعوے کو متنازع قرار دیا لیکن تسلیم کیا کہ سرکاری فورسز بند اضلاع سے پیچھے ہٹ چکی ہے تاہم آزاد ذرائع سے تصدیق مشکل مرحلہ ہے۔

خیال رہے کہ کابل کے شمال میں واقع بگرام ائیر بیس سے غیرملکی افوان کے اخراج کے بعد طالبان جنگجوؤں کی جانب سے مزید علاقوں میں قبضے کی مہم کو تقویت پہنچنے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔

افغان فورسز کے لیے بگرام ائیر بیس بڑی فوجی اور علامتی اہمیت کا حامل ہے جہاں طالبان کے خلاف کارروائیوں میں مدد کے لیے بین الاقوامی فورسز تعینات تھیں۔ افغان حکام نے اس بیس کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد کہا کہ وہ بیس کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے استعمال کریں گے اور اس کا ریڈار سسٹم فعال ہو چکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کُل جماعتی اجلاس کے بعد گُپکار الائنس کی پہلی میٹنگ


واضح رہے کہ تجارت کے اہم سمجھے جانے والے افغانستان اور تاجکستان کی گزرگاہ پر پر بھی طالبان نے گزشتہ دنوں قبضہ کرلیا تھا۔

یو این آئی

افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء کے عمل کے آخری مرحلے کے دوران طالبان نے افغان اضلاع پر قبضہ جاری رکھنے کی مہم کے تحت اپنے پرانے گڑھ قندھار پر بھی قبضہ کرلیا ہے۔ یہ غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ میں دی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق تالبان نے افغانستان میں قندھار کے اہم اور اپنے سابق گڑھ سمجھے جانے والے صوبے پر افغان فورسز کے ساتھ شدید جھڑپ کے بعد دوبارہ قبضہ کر لیا ہے، جو امریکی فوج کے انخلا کے اعلان کے بعد تازہ پیش رفت ہے اور طالبان کی اہم کامیابی سمجھی جارہی ہے۔

غیر ملکی خبر ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امریکی فوج کے مکمل انخلا سے قبل ہی طالبان نے اپنی مہم کے تحت افغانستان کے دیہی علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کردیا ہے جو رواں برس سے مئی سے جاری ہے۔

طالبان نے قندھار کے جنوب میں واقع ضلع پنجوائی پر امریکی فوج اور نیٹو کی جانب سے کابل کے قریب واقع بگرام ائیر بیس خالی کرنے کے محض دو دن بعد قبضہ کرلیا ہے، جہاں سے امریکہ دو دہائیوں تک طالبان اور القاعدہ کے خلاف کارروائیاں کرتا رہا۔

رپورٹ کے مطابق صوبائی دارالحکومت کی اہمیت کے پیش نظر پنجوائی اور اطراف میں قبضے کے لیے افغان فورسز اور طالبان کے درمیان تصادم ہوتا رہا ہے۔

واضح رہے کہ قندھار وہ علاقہ ہے جہاں طالبان کی بنیاد رکھی گئی اور شریعت کی سختی سے پابندی کے ساتھ انہوں نے یہاں پر حکمرانی کی جب تک 2001 میں امریکہ نے یہاں حملے نہیں شروع کردیے تھے۔

پنجوائی کے گورنر ہستی محمد نے کہا ہے کہ افغان فورسز اور طالبان کے درمیان رات بھر تصادم ہوا، جس کے نتیجے میں سرکاری فورسز کو علاقہ چھوڑنا پڑا۔ انہوں نے غیر ملکی میڈیا کو بتایا کہ طالبان ضلع پولیس ہیڈکوارٹرز اور گورنر کے دفتر کی عمارت پر قبضہ کر چکے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق قندھار کی صوبائی کونسل کے سربراہ سید جان خاکریوال نے تصدیق کی کہ وہ ضلع پنجوائی گنوا بیٹھے ہیں لیکن الزام عائد کیا کہ سرکاری فورسز جان بوجھ کر علاقے سے دست بردار ہوئی ہیں۔

رپورٹس کے مطابق حالیہ ہفتوں میں افغانستان کے مختلف صوبوں میں جھڑپیں جاری ہیں اور طالبان نے ملک کے 400 میں سے 100 اضلاع پر قبضے کا دعویٰ کیا ہے۔ افغان حکام نے طالبان کے دعوے کو متنازع قرار دیا لیکن تسلیم کیا کہ سرکاری فورسز بند اضلاع سے پیچھے ہٹ چکی ہے تاہم آزاد ذرائع سے تصدیق مشکل مرحلہ ہے۔

خیال رہے کہ کابل کے شمال میں واقع بگرام ائیر بیس سے غیرملکی افوان کے اخراج کے بعد طالبان جنگجوؤں کی جانب سے مزید علاقوں میں قبضے کی مہم کو تقویت پہنچنے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔

افغان فورسز کے لیے بگرام ائیر بیس بڑی فوجی اور علامتی اہمیت کا حامل ہے جہاں طالبان کے خلاف کارروائیوں میں مدد کے لیے بین الاقوامی فورسز تعینات تھیں۔ افغان حکام نے اس بیس کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد کہا کہ وہ بیس کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے استعمال کریں گے اور اس کا ریڈار سسٹم فعال ہو چکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کُل جماعتی اجلاس کے بعد گُپکار الائنس کی پہلی میٹنگ


واضح رہے کہ تجارت کے اہم سمجھے جانے والے افغانستان اور تاجکستان کی گزرگاہ پر پر بھی طالبان نے گزشتہ دنوں قبضہ کرلیا تھا۔

یو این آئی

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.