یمن کے شہر تعز میں پیر کے روز بڑی تعداد میں مظاہرین جمع ہوئے، جنہیں منتشر کرنے کے لئے سکیورٹی فورسز نے ہلکے طاقت کا استعمال کیا۔
ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین نے مقامی کرنسی، ریال کی قیمت میں گراوٹ کے خلاف احتجاج کیا، کیونکہ اس سے ان کی بنیادی ضروریات کی چیزوں تک رسائی مشکل ہو جاتی ہے۔
مظاہرین انور محمد نے کہا کہ سیکورٹی فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے غیر اصولی اقدام کئے۔
انہوں نے احتجاج کو منتشر کرنے کے طریقے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "انہوں نے براہ راست ہوا میں گولیاں چلانے کے بجائے ہم پر گولیاں چلائیں۔''
انہوں نے کہا کہ ''ہم عرب اتحاد کی قیادت کو پیغام بھیجنا چاہتے ہیں، ہم اس حکومت اور پارلیمنٹ کے ارکان کو پیغام بھیجتے ہیں کہ وہ لوگوں کو تکلیف دینا بند کریں اور یمن اور تعز کے لئے کام کریں۔ آج بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت اور خالد فلیل کی قیادت میں تعز ملٹری نے مظاہرین پر گولیاں چلائیں، شہریوں کو خوفزدہ کیا۔ انہوں نے ہوا میں نہیں بلکہ براہ راست ہماری طرف گولی چلائی اور مظاہرین زخمی ہوئے۔"
ہزاروں یمنی قحط جیسی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق ملک کے تقریباً 30 ملین لوگوں میں سے 20.1 ملین سے زیادہ کو کسی نہ کسی طرح کی انسانی امداد کی ضرورت ہے۔
یمن 2014 سے خانہ جنگی کی زد میں ہے جب ایران کے حمایت یافتہ حوثیوں نے دارالحکومت صنعا اور ملک کے شمالی حصے کا بیشتر حصہ اپنے قبضے میں لے لیا، جس کے بعد صدر عابد ربو منصور ہادی پہلے جنوب کی طرف فرار ہوئے پھر سعودی عرب میں پناہ لی۔
یہ بھی پڑھیں: یمن: صنعأء ہوائی اڈے کو بند کئے جانے کے خلاف احتجاج
سعودی قیادت میں فوجی اتحاد یمن کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ہادی کی حکومت کے ساتھ مل کر 2015 سے ایران کے حمایت یافتہ حوثیوں کے خلاف لڑ رہا ہے، اور اس اتحاد کو امریکی حمایت بھی حاصل ہے۔
مسلسل فضائی حملے اور زمینی لڑائی نے یمن میں دنیا کی بدترین انسانی بحران کو بھی جنم دیا ہے۔