قطر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ملک کے پہلے قانون ساز انتخابات میں مشاورتی شوریٰ کونسل کے دو تہائی ارکان کے لیے آج ووٹ ڈالے گئے۔
ہفتہ کو پولنگ اسٹیشنوں میں پہنچ کر مردوں اور عورتوں نے الگ الگ حصوں میں داخل ہوکر 45 نشستوں کے کونسل کے 30 ارکان کے انتخاب کے لیے ووٹ ڈالے جبکہ کونسل کے بقیہ 15 ارکان کی تقرری قطری امیر خود کریں گے۔
پولنگ 05:00 GMT سے شروع ہوئی اور 15:00 GMT پر بند ہوگئی اور آج ہی کے دن نتائج بھی متوقع ہیں۔
خليجی رياست قطر میں کوئی سیاسی جماعت نہ ہونے کی وجہ سے انتخابی مرحلے ميں تمام امیدوار بحيثت آزاد اميدوار حصہ لے رہے ہیں۔
امیدواروں کے لیے 30 سال سے زائد عمر اور قطری شہری ہونا لازمی ہے۔ قطر کی شہریت رکھنے والے 18 سال سے زائد عمر کے افراد ہی ووٹ ڈالنے کے اہل تھے۔
قطر نے سب سے پہلے اپنے 2003 کے آئین میں قانون ساز انتخابات کے منصوبے پیش کیے تھے، لیکن حکام نے بار بار انتخابات کے عمل کو ملتوی کیا۔
45 رکنی شوریٰ کونسل میں سے دو تہائی کا انتخاب کرنے کے لیے قطریوں نے انتخابات کا رخ کیا ، جو قوانین کا مسودہ تیار کرتی ہے، ریاستی بلوں کی منظوری دیتی ہے، بڑے مسائل پر بحث کرتی ہے اور حکمران امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی کو مشورے دیتی ہے۔ تاہم ، دفاع ، سلامتی اور معیشت کے معاملات پر اس کونسل کا کنٹرول نہیں ہوگا۔
قطری امیر شیخ تمیم جو پہلے کونسل کے تمام اراکین کو منتخب کرتے تھے اب کونسل کے باقی 15 ارکان کو منتخب کریں گے اور ملک میں فیصلہ سازی پر حتمی اختیار برقرار رکھیں گے۔
دیگر خلیجی عرب ریاستوں کی طرح قطر بھی سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کرتا ہے۔
خلیج فارس کے شیخوں میں سے صرف کویت کی پارلیمنٹ ہی حکومت پر حقیقی اثر و رسوخ رکھتی ہے، قانون سازوں کو قانون متعارف کرانے اور وزیروں سے سوال کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ تاہم، حتمی فیصلہ سازی وہاں بھی ہمسایہ ریاستوں کی طرح حکمران پر ہی منحصر ہے۔
قطر ميں غير ملکی ملازمين کی تعداد بہت زيادہ ہے۔ ملکی آبادی لگ بھگ 2.8 ملين ہے، جس ميں قطری شہريوں کا تناسب صرف دس فيصد ہے۔ ليکن ان ميں سے بھی تمام شہريوں کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہيں تھی۔
ايک قانون کے تحت صرف ان شہريوں کو حق رائے دہی حاصل تھا، جن کے اہل خانہ سن 1930 سے قبل بھی قطر ميں تھے۔