اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ نے غزہ میں جنگ بندی کی منظوری دے دی۔ حکومت کے پریس آفس کے جاری کردہ بیان کے مطابق اسرائیلی سکیورٹی کابینہ نے متفقہ طور پر دو طرفہ جنگ بندی کے لیے مصر کی تجویز کو قبول کرلیا ہے، جو بعد میں نافذ العمل ہوگی۔
ذرائع کے مطابق حماس نے بھی جنگ بندی پر رضا مندی ظاہر کردی۔
سکیورٹی کابینہ نے متفقہ طور پر سکیورٹی خدمات کے تمام سربراہان، چیف آف جنرل اسٹاف، شبک کے سربراہ ، موساد کے سربراہ اور قومی سلامتی کونسل کے سربراہ نے دو طرفہ جنگ بندی پر مصر کی تجویز کو قبول کرنے کی سفارش کو متفقہ طور پر قبول کرلیا ہے جو بعد میں نافذ ہوجائے گی۔
اسرائیل کی طرف سے یکطرفہ جنگ بندی کا خیرمقدم کرتے ہوئے فلسطینی وزیر خارجہ ریاض المالکی نے کہا کہ یہ کافی نہیں ہے کیونکہ یروشلم اب بھی کلیدی مسئلہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ اچھی بات ہے کہ فلسطینی عوام، جن میں سے 20 لاکھ سے زیادہ آج کی رات سونے کے قابل ہوں گے، یہ جانتے ہوئے کہ ان کا کل روشن ہوگا، لیکن یہ کافی نہیں ہے، کیونکہ ان سب کو شروع کرنے والا بنیادی مسئلہ یروشلم ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم یروشلم کو نہیں بھول سکتے۔خیال رہے کہ گزشتہ کئی عرصے سے مقبوضہ بیت المقدس کے علاقے شیخ جراح سے فلسطینی مسلمانوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرکے یہودیوں کو آباد کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور اس کیخلاف مسلمان سراپا احتجاج ہیں۔
خبروں کے مطابق جمعۃ الوداع کے روز اسرائیلی فورسز نے مسجد الاقصیٰ میں نمازیوں پر چڑھائی کردی جس کے نتیجے میں متعدد نمازی زخمی ہوئے۔ اس واقعے کے بعد حماس نے اسرائیل سے مسجد الاقصیٰ سے فوری طور پر فوج ہٹانے کا مطالبہ کیا اور اس حملے کا بدلہ لینے کا اعلان کیا۔ پھر حماس کی جانب سے اگلے روز غزہ سے اسرائیلی علاقے میں راکٹ داغے گئے جس میں اطلاعات کے مطابق 2 اسرائیلی ہلاک اور 8 زخمی ہوئے۔
اس حملے کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نے کہا تھا کہ اسرائیل بھرپور طاقت کے ساتھ جواب دےگا اور حملہ کرنے والوں کو اس کی بھاری قیمت چکانا ہوگی اور پھر اسرائیلی طیاروں نے غزہ پر بمباری شروع کردی۔
واضح رہے کہ اسرائیل اور غزہ میں جاری تصادم میں مجموعی طور پر 256 افراد ہلاک ہوئے ہیں، جن میں 69 بچے اور ایک اسرائیلی فوجی شامل ہے۔ اس کے ساتھ ہی اب تک ہزاروں افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا ہنگامی اجلاس
دوسری جانب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر وولکان بوزکیر نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی جارحیت فلسطینیوں پر ظلم ہے، دنیا نے فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور غزہ پر اسرائیلی جارحیت غیر انسانی ہے جو کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہے۔
جنرل اسمبلی کے صدر وولکان بوزکیر نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی جارحیت فلسطینیوں پر ظلم ہے، ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ مسلمانوں کے مقدس مہینہ رمضان میں مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی حملے سے دنیا کے ایک ارب 80 کروڑ مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ غزہ میں اسرائیلی حملوں سے سنگین انسانی بحران پیدا ہو گیا ہے، دنیا نے فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اب تک سینکڑوں فلسطینی اسرائیلی حملوں میں شہید ہو چکے ہیں، صورتحال انتہائی تشویشناک ہوچکی ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت غیر انسانی ہے جو کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہے، تمام دنیا مذہبی مقامات اور معصوم شہریوں پر اسرائیلی حملوں کی مذمت کر رہی ہے، بیت المقدس پر حملہ انتہائی افسوسناک ہے، اسرائیل مذہبی مقامات کا احترام کرے۔
یو این کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوئٹرس نے کہا کہ دنیا آج غزہ کے معصوم بچوں کے لیے جہنم بنی ہوئی ہے، غزہ پر اسرائیلی بمباری نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
فلسطینی وزیر خارجہ ریاض المالکی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل غزہ کے معصوم شہریوں کا قتل عام بند کرے، اسرائیل فوج کے معصوم فلسطینیوں پر حملے جاری ہیں، اسرائیل غزہ میں جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسرائیل ایک طرف معصوم شہریوں کا قتل عام کر رہا ہے تو دوسری طرف فلسطینیوں کو ہی مورد الزام ٹھہرا رہا ہے، اسرائیلی حملوں سے اب تک 230 معصوم فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ شہدا میں 36 خواتین اور 40 بچے اور 15 بزرگ شہری شامل ہیں، اسرائیلی حملوں سے 1050 رہائشی مکانات اور 50 اسکول تباہ ہو گئے،
انھوں نے کہا کہ اسرائیلی حملوں سے غزہ کا شہری انفرا اسٹرکچر تباہ ہوگیا اسرائیلی جارحیت سے ایک لاکھ سے زائد فلسطینی بے گھر ہو چکے اس کے باوجود اسرائیل عالمی مذمت پر کان نہیں دھر رہا بلکہ اس کی جارحیت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے انھوں نے مزید کہا کہ اسرائیل نے حملے عالمی وبا کے عروج کے دوران کیے۔ ترکی کے وزیر خارجہ میلوت چاوش اولو نے کہا کہ ترکی فلسطین پر ہونے والے ناقابل بیان مظالم پر خاموش نہیں رہ سکتا، غزہ پر اسرائیل کے حصار نے اسے دنیا کی سب سے بڑی اوپن ایئر جیل بنا دیا ہے، فلسطینیوں پر اسرائیلی حملے جنگی جرائم ہیں، حملوں سے غزہ میں بحران پیدا ہو گیا ہے،اس صورتحال سے دنیا بھر کے مسلمان پریشان ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ترکی مظلوم فلسطینیوں کا ساتھ کسی صورت میں نہیں چھوڑے گا اور اگر آج دنیا اسرائیلی جارحیت اور ظلم پر خاموش رہی تو اس کا مطلب ہے کہ ہم تمام اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔
اسرائیل فلسطین تنازعہ کے اصل محرکات اور وجوہات کو جاننا ضروری ہے حالیہ تنازعہ اسرائیل کی اشتعال انگیزی سے شروع ہوا ہے، اسرائیل نے مسجد اقصیٰ پر بلا جواز حملہ کیا اور مسلمانوں کو مسجد اقصیٰ میں عبادت سے روکا گیا، وہیں فلسطینیوں کو ان کے آبائی گھروں سے بے دخل کیا جا رہا ہے اور یہ حملے رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں کئے گئے۔ ترک وزیر خارجہ نے کہا کہ اسرائیل معصوم شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے، اسرائیلی جنگی طیارے اسپتالوں اور اسکولوں کو بموں سے تباہ کر رہے ہیں، دنیا کو اسرائیل کا مکروہ چہرہ دکھانا ہوگا اور اس حملے کے ذمہ داروں کو سزا دینی ہوگی۔
سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خصوصی اجلاس سے خطاب کے دوران کہا کہ فلسطین کے تنازعے کو "عرب امن اقدام" کے تحت حل کیا جائے، سعودی عرب غزہ میں جنگ بندی کی کوششوں کو سراہتا ہے، مسئلہ فلسطین سعودی عرب کی خارجہ پالیسی کا بنیادی مرکز ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ جب تک فلسطینیوں کو ان کی زمینیں واپس نہیں مل جاتیں سعودی عرب فلسطین کے ساتھ ہے، سعودی عرب مشرقی یروشلم سے فلسطینیوں کی بے دخلی کے اسرائیلی اقدام کو سختی سے مسترد کرتا ہے۔
پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آج ہم جو کچھ بھی کریں گے یا اگر ہم فلسطینیوں کے لیے کچھ نہ کر پائے تو یہ تمام حقائق تاریخ میں درج ہو جائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ اسرائیل نے نہتے فلسطینیوں پر حملہ کیا، ایک طرف غزہ کا اسرائیل نے کئی سالوں سے محاصرہ کیا ہوا ہے تو دوسری طرف غزہ کے معصوم شہریوں پر بم اور میزائل برسائے جا رہے ہیں، اسرائیلی میزائل حملوں سے 250 سے زائد فلسطینی شہید ہو گئے، ہزاروں فلسطینی زخمی ہوئے، غزہ کے ہر گھر سے جنازے اٹھ رہے ہیں، فلسطین کے ابو حتاب خاندان کا ہر فرد اسرائیلی حملے میں شہید ہو گیا۔
واضح رہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جاری حالیہ کشیدگی کے پیش نظر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا ہنگامی اجلاس نیویارک میں منعقد ہوا جس میں پاکستان، ترکی، سعودی، سوڈان اور دیگر ممالک کے وزیر خارجہ نے شرکت کی۔
مزید پڑھیں:
اسرائیل ۔ فلسطین تنازع: عالمی رہنماؤں نے جنگ بندی کا خیرمقدم کیا
غورطلب ہے کہ اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ میں جنگ بندی کی تجویز منظور کر لی گئی ہے اور عالمی رہنماؤں نے اس جنگ بندی کا خیر مقدم بھی کیا ہے۔ ایسے میں دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ یہ جنگ بندی کس قدر نافذالعمل ہوگی۔