فلسطین نے مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) میں امریکی قونصل خانے کو دوبارہ کھولنے کے وعدے کو مسترد کرنے پر اسرائیل پر تنقید کی۔
واضح رہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے کہا کہ یروشلم میں فلسطینیوں کے لیے امریکی قونصل خانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
سی این این کی طرف سے ہفتے کی شام ایک پریس کانفرنس میں امریکی ارادوں کے بارے میں پوچھے جانے پر اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے کہا کہ ان کی حکومت نے اپنی رائے امریکیوں کے سامنے واضح طور پر اور کھلے عام پیش کی ہے کہ یروشلم میں دوسرے امریکی قونصل خانے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہم ہمیشہ ڈرامے کے بغیر خاموشی سے اپنا موقف پیش کرتے ہیں اور ہمیں توقع ہے کہ اسے سمجھا جائے گا۔
نفتالی بینیٹ نے وزیر خارجہ یائر لاپڈ اور وزیر خزانہ ایویگڈور لیبرمین کے ساتھ کہا کہ یروشلم ایک ریاست کا دارالحکومت ہے اور وہ ریاست اسرائیل ہے، مجھے یقین ہے کہ ہمارے امریکی دوست دیگر اہم چیزوں کی ایک طویل فہرست میں تعاون جاری رکھیں گے۔
اس سے قبل اکتوبر میں امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن نے کہا تھا کہ امریکی فلسطینیوں کی خدمت کے لیے یروشلم میں اپنا قونصل خانہ دوبارہ کھولنا چاہتے ہیں۔
بلنکن نے محکمہ خارجہ میں کہا تھا کہ "ہم فلسطینیوں کے ساتھ ان تعلقات کو مزید گہرا کرنے کے ایک حصے کے طور پر قونصل خانہ کھولنے کے عمل کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔" امریکی قونصل خانے کے دوبارہ کھولنے سے ٹرمپ کے دور میں ٹوٹے ہوئے فلسطینیوں کے ساتھ امریکی تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔
ایک بیان میں فلسطینی وزارت خارجہ نے کہا کہ وہ قونصل خانے کو دوبارہ کھولنے کے عزم کو بین الاقوامی برادری کے ان علاقوں پر اسرائیل کے کئی دہائیوں سے جاری قبضے کو ختم کرنے کے وعدوں کے ایک حصے کے طور پر دیکھتے ہیں جو فلسطینی اپنی مستقبل کی ریاست کے لیے چاہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
- فلسطین نے نئے یہودی آبادکاری کے اسرائیلی منصوبے کی مذمت کی
- امریکا اور یورپی یونین کی شدید تنقید کے باوجود اسرائیل نے 3130 مکانات تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا
- یروشلم: فلسطینیوں کو اپنے گھروں کی انہدامی کاروائی کا خطرہ
مشرقی بیت المقدس، مقبوضہ فلسطینی سرزمین کا ایک لازم و ملزوم حصہ ہے اور ریاست فلسطین کا دارالحکومت ہے۔
وہیں اسرائیلی وزیر خارجہ یائر لاپڈ نے تجویز دی کہ قونصل خانہ مغربی کنارے کے علاقے راملہ میں فلسطینی انتظامی مرکز میں کھولا جاسکتا ہے۔
فلسطینی اس خیال کو مسترد کرتے ہیں کیونکہ اس سے بیت المقدس پر ان کے دعوؤں کو نقصان پہنچے گا۔
واضح رہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں امریکی قونصل خانے کو تل ابیب سے منتقل کرکے یروشلم میں نئے امریکی سفارت خانے میں ضم کر دیا تھا لیکن ٹرمپ انتظامیہ نے 2019 قونصلیٹ کو بند کر دیا تھا، جب امریکہ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا۔
انٹونی بلنکن نے سفارتخانہ دوبارہ کھولنے کے لیے کوئی تاریخ نہیں بتائی اور امریکی حکام نے کہا ہے کہ اس اقدام کے خلاف اسرائیلی مزاحمت ایک رکاوٹ کا کام کر سکتی ہے۔