اسرائیل نے پیر کے روز ایک اسلامی عالم دین کو اپنی 28 ماہ کی قید کی مدت پوری کرنے کے بعد جیل سے رہا کر دیا (Israel released a Islamic cleric from prison)، اس سزا میں سابقہ الزامات کے لیے گزارا گیا وقت بھی شامل ہے۔
رائد صلاح کو 2017 میں یروشلم میں اسرائیلی پولیس پر حملے (attack in 2017 on Israeli police at Jerusalem) کے بعد کی گئی تقریروں کی ایک سیریز میں "تشدد کے لیے اکسانے" کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔
2017 میں اسرائیل کے دو عرب شہریوں نے یروشلیم کی عبادت گاہ میں اسرائیلی پولیس پر حملہ کیا تھا، یہ مقام مسلمانوں اور یہودیوں دونوں کے لیے مقدس ہے، اس کے بعد فلسطینیوں اور اسرائیلی افواج کے درمیان تشدد (violence between Israeli forces and Palestinians) بھڑک اٹھا تھا، اور اسرائیلی پولیس نے فلسطینی باشندوں پر خوب ظلم کیا تھا، حالانکہ اسرائیلی فورسز کی جانب سے فلسطینی باشندوں پر کی جانے والی کاروائی کبھی رکتی نہیں ہے۔
عالم دین نے اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کو جھوٹا قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ گزشتہ سال اس کی سزا سنائے جانے کے بعد اس کیس کی تمام کارروائیاں "سچائی سے بہت دور" تھیں۔
عرب کے شمالی قصبے ام الفہم (Arab northern town of Umm Al-Fahm) میں صلاح کے کئی سو حامیوں نے ان کی رہائی کا خیر مقدم کیا اور جشن میں آتش بازی کی۔
صلاح کا اسرائیلی حکام کے ساتھ بار بار جھگڑا ہوا ہے۔ انہوں نے 2017 میں "تشدد پر اکسانے" اور "نسل پرستی کو اکسانے" کے جرم میں نو ماہ قید کی سزا مکمل کی ہے۔ یہ فیصلہ اسرائیلی عدالت نے سنایا تھا، حالانکہ صلاح نے ان پر لگائے گئے تمام الزامات کی تردید کی ہے۔
انہیں 2018 میں رہا کیا گیا تھا اور 2020 میں دوبارہ گرفتار ہونے سے پہلے انہیں گھر میں نظر بند کر دیا گیا تھا اور انہیں کل 28 ماہ کی سزا سنائی گئی تھی۔
وہ اسرائیل میں اسلامی تحریک کی شمالی شاخ کے سربراہ ہیں، اس گروپ کو اسرائیل نے 2015 میں غیر قانونی قرار دیا تھا اور اس پر عربوں کو تشدد پر اکسانے کا الزام لگایا تھا۔
ایک اندازے کے مطابق اس تنظیم سے 20,000 افراد جڑے ہوئے ہیں۔
اس تنظیم نے خیراتی اداروں، کنڈرگارٹنز، ہیلتھ کلینک اور سماجی خدمات کا کام کر کے مقبولیت حاصل کی ہے -
یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی جیل میں انتظامی حراست کے خلاف ہفتوں سے قیدیوں کی تامرگ بھوک ہڑتال جاری
اسرائیل کے عرب شہری آبادی کا تقریباً 20 فیصد ہیں، اور وہاں کی شہریت بھی ان کے پاس ہے لیکن ملازمتوں، رہائش اور سماجی خدمات میں بڑے پیمانے پر امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔
ان کے مغربی کنارے اور غزہ کے فلسطینیوں کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں اور زیادہ تر ان کی شناخت فلسطینی سے ہے۔