ETV Bharat / international

خاشقجی قتل معاملے میں 20 ملزمان پر فردِ جرم عائد

سنہ 2017 میں صحافی جمال خاشقجی جلا وطنی اختیار کر کے امریکہ چلے گئے۔ 2 اکتوبر سنہ 2018 میں وہ اپنی منگیتر ہاتف چنگیز کے ساتھ شادی کرنے کے لیے کچھ دستاویزات لینے استنبول میں سعودی عرب کے قونصل خانے گئے۔

ترکی: خاشقجی قتل معاملے میں 20 ملزمان پر فردِ جرم عائد
ترکی: خاشقجی قتل معاملے میں 20 ملزمان پر فردِ جرم عائد
author img

By

Published : Mar 26, 2020, 8:53 AM IST

تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ جب ہاتف سفارت خانے کے باہر انتظار کر رہی تھیں تو اندر جمال خاشقجی کا قتل کر کے ان کے جسم کے ٹکڑے کیے جا رہے تھے۔ خاشقجی کی باقیات کبھی نہیں ملیں۔

اکتوبر سنہ 2018 میں استنبول میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے ترکی نے 20 ملزمان پر فردِ جرم عائد کر دی ہے۔

اس معاملے کے تحت سعودی عرب کے سابق ڈپٹی انٹیلیجنس چیف احمد اسیری اور سابق شاہی مشیر سعود القحطانی پر قتل کے لیے اکسانے کی وجہ سے فردِ جرم عائد کی گئی ہے۔

بقیہ 18 افراد پر سعودی سفارت خانے کے اندر 'جان بوجھ کر اور بہیمانہ قتل' سرانجام دینے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

مغربی انٹیلیجنس ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ قتل ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے حکم پر کیا گیا لیکن انھوں نے اس بات کی تردید کی ہے۔

اقوامِ متحدہ کی ایک خصوصی نمائندہ کا کہنا ہے کہ خاشقجی کو جان بوجھ کر، سوچ سمجھ کر قتل کیا گیا اور سعودی عرب کی ریاست اس ماورائے عدالت قتل کی ذمہ دار ہے۔

قتل سے پہلے 59 سالہ صحافی جمال خاشقجی واشنگٹن پوسٹ کے لیے کام کرتے تھے اور سعودی حکومت کے ناقدین میں شامل تھے۔

سعودی حکام نے 'غیر قانونی آپریشن' کو خاشقجی کی موت کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا۔ خاشقجی قتل کیس میں دسمبر میں سعودی عرب کی عدالت نے پانچ نامعلوم افراد کو سزائے موت جبکہ تین افراد کو قید کی سزا سنائی۔

استنبول میں عائد کی گئی فردِ جرم کے مطابق احمد اسیری اور سعود القحطانی پر جان بوجھ کر بہیمانہ قتل پر اکسانے اور ایذا پہنچانے' کا الزام ہے۔

استغاثہ کے بیان میں 18 دیگر افراد پر قتل کے پلان پر عمل درآمد کرنے کا الزام ہے۔ ان افراد میں سعودی رائل گارڈ کے ممبر، فورنسک ماہر اور سعودی انٹیلیجنس افسر بھی شامل ہیں جنھوں نے ماضی میں ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ سفر کیا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ یہ فردِ جرم گواہوں کے بیانات، خاشقجی کے ڈیجیٹل آلات کے تجزیے اور ترکی آنے جانے والے افراد کے ریکارڈ کی بنیاد پر عائد کی گئی ہے۔

سعودی عرب نے فی الحال فردِ جرم کے بارے میں کوئی بیان نہیں دیا ہے۔

مزید پڑھیں:'اکیس دن میں کورونا سے لڑائی جیتنی ہے'


اقوامِ متحدہ کی خصوصی نمائندہ ایگنس کالامارڈ کہتی ہیں کہ اتنے شواہد موجود تھے کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور اعلیٰ عہدوں پر فائز دیگر سعودی افسران کو ذمہ دار ٹھہرایا جا سکے۔

تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ جب ہاتف سفارت خانے کے باہر انتظار کر رہی تھیں تو اندر جمال خاشقجی کا قتل کر کے ان کے جسم کے ٹکڑے کیے جا رہے تھے۔ خاشقجی کی باقیات کبھی نہیں ملیں۔

اکتوبر سنہ 2018 میں استنبول میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے ترکی نے 20 ملزمان پر فردِ جرم عائد کر دی ہے۔

اس معاملے کے تحت سعودی عرب کے سابق ڈپٹی انٹیلیجنس چیف احمد اسیری اور سابق شاہی مشیر سعود القحطانی پر قتل کے لیے اکسانے کی وجہ سے فردِ جرم عائد کی گئی ہے۔

بقیہ 18 افراد پر سعودی سفارت خانے کے اندر 'جان بوجھ کر اور بہیمانہ قتل' سرانجام دینے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

مغربی انٹیلیجنس ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ قتل ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے حکم پر کیا گیا لیکن انھوں نے اس بات کی تردید کی ہے۔

اقوامِ متحدہ کی ایک خصوصی نمائندہ کا کہنا ہے کہ خاشقجی کو جان بوجھ کر، سوچ سمجھ کر قتل کیا گیا اور سعودی عرب کی ریاست اس ماورائے عدالت قتل کی ذمہ دار ہے۔

قتل سے پہلے 59 سالہ صحافی جمال خاشقجی واشنگٹن پوسٹ کے لیے کام کرتے تھے اور سعودی حکومت کے ناقدین میں شامل تھے۔

سعودی حکام نے 'غیر قانونی آپریشن' کو خاشقجی کی موت کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا۔ خاشقجی قتل کیس میں دسمبر میں سعودی عرب کی عدالت نے پانچ نامعلوم افراد کو سزائے موت جبکہ تین افراد کو قید کی سزا سنائی۔

استنبول میں عائد کی گئی فردِ جرم کے مطابق احمد اسیری اور سعود القحطانی پر جان بوجھ کر بہیمانہ قتل پر اکسانے اور ایذا پہنچانے' کا الزام ہے۔

استغاثہ کے بیان میں 18 دیگر افراد پر قتل کے پلان پر عمل درآمد کرنے کا الزام ہے۔ ان افراد میں سعودی رائل گارڈ کے ممبر، فورنسک ماہر اور سعودی انٹیلیجنس افسر بھی شامل ہیں جنھوں نے ماضی میں ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ سفر کیا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ یہ فردِ جرم گواہوں کے بیانات، خاشقجی کے ڈیجیٹل آلات کے تجزیے اور ترکی آنے جانے والے افراد کے ریکارڈ کی بنیاد پر عائد کی گئی ہے۔

سعودی عرب نے فی الحال فردِ جرم کے بارے میں کوئی بیان نہیں دیا ہے۔

مزید پڑھیں:'اکیس دن میں کورونا سے لڑائی جیتنی ہے'


اقوامِ متحدہ کی خصوصی نمائندہ ایگنس کالامارڈ کہتی ہیں کہ اتنے شواہد موجود تھے کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور اعلیٰ عہدوں پر فائز دیگر سعودی افسران کو ذمہ دار ٹھہرایا جا سکے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.