موجودہ دور میں 70 لاکھ سے زیادہ فلسطینی مہاجر کیمپ میں رہنے کو مجبور ہیں۔ جبکہ اسرائل کی کل آبادی ہی تقریبا 80 لاکھ ہے۔
اسرائل کی کل آبادی میں صرف 5 اعشاریہ 5 فیصد آبادی کا تعلق پرانے فسطین سے ہے جبکہ تقریبا 94 فیصد آبادی کو دوسرے ممالک سے لاکر وہاں بسایا گیا ہے۔
سوچیئے آپ کا گھر ہو، خاندان ہو سب کچھ بہت اچھا ہو، پھر اچانک کوئی سر پھرا آتا ہے اور آپکے گھر سے آپکو بے دخل کر دیتا ہے، آپکے گھر کو چھین لیا جاتا ہے، آپکو مہاجر بننے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے آپکے بچوں کو مارا کاٹا جاتا ہے جی ہاں بلکل ایسا ہی 1948 میں فلسطینیوں کے ساتھ ہوا تھا۔
سنہ 1947 کے نومبر میں اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی نے دو حصوں میں تقسیم کرنے کا سجھاو دیا جس میں ایک کو عرب فلسطین جبکہ دوسرے کو یہودیوں کا فلیسطین بنانے کی بات کہی تھی۔
اس وقت فلسطین کی ابادی میں یہودیوں کی آبادی تقریبا 33 فیصد تھی جبکہ اقوام متحدہ نے انہیں زمین کا تقریبا 55 فیصد حصہ دینے کی بات کہی جس سے عرب ممالک نے مان نے سے انکار کر دیا۔
کتابی اور زبانی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ آج سے 71 برس قبل 15 جون 1948 کو فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل کا جبرا قیا م عمل میں آٰیا تھا اور اس کے لیے تقریبا 7500000 فلسطینیوں کو ان کے گھر وں سے اجاڑ کر بے دخل کر دیا گیا تھا۔ جبکہ تقریبا 13000 فلسطینیوں اسرائلی فوجیوں نے قتل کر دیا گیا تھا۔
سنہ 1948 کے اپریل ماہ میں اسرائل نے اس وقت کے فلسطین کے سب سے بڑے شہر ہائفہ پر قبضہ کر لیا۔
سنہ 1949 میں اقوام متحدہ میں اسرائیل نے یہ تسلیم کیا تھا کہ فلسطین کے 78 فیصد حصوں پر اسرائیل نے اپنی پکڑ مضبوط کر لی ہے۔
جبکہ مزید 22 فیصد حصے ویسٹ بینک اور غزہ فلیسطین کے طور پر قائم رہا۔
اسرائیل کی تخلیق کر نے والے صیہونی قائد ڈیوڈ بن گوریون نے اس موقعے پر واضح طور پر کہا تھا کہ ' میں فلسطینیوں کا مکمل انخلا چاہتا ہوں اور اس میں کو ئی اخلاقی برا ئی نہیں ہے''۔
اس طرح 400 سے زائد فلسطینی گاؤں کو تباہ کر کے فلسطین کی 78 فیصد تاریخ زمین پر اسرائیل کا قیام عمل میں آیا تھا۔
اسرائیلی قوم جب اپنے قیام کا 71 سالہ جشن منا رہی ہے وہیں فلسطینی عوام یوم ' نکبہ' یعنی تباہی و بربادی کا دن منا رہی ہے۔
سنہ 2017 میں 14 مئی کو جب امریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے یرشلم منتقل کیا جارہا تھا فلسطینوں نے زبر دست احتجاج کیا۔ جسے روکنے کے لیے اسرائیل فورسز نے گولی اور راکٹ کا استعمال کیا۔ اس کاروائی میں 58 فلسطینی ہلاک اور 3000 سے زائد زخمی ہو گئے۔ یہ سنہ 2014 کے بعد فلسطینوں کی سب سے بڑی ہلاکت تھی۔
قابل ذکر ہے کہ اقوام متحدہ کی 194 ویں قرارداد کے مطابق فلسطینیوں کو اپنی سرزمین پر لوٹنے کا حق حاصل ہے۔
یہ مظاہرین اسی ریزولیوشن کے مطابق اپنی سرزمین پر واپسی کا حق مانگ رہے ہیں، اور اس مانگ کو اسرائیلی فورسز بزور قوت دبا رہی ہے۔
فلیسطینیوں کا یوم نکبہ 1948 سے ابتک ختم نہیں ہوا، یہ ہر برس، ہر ماہ، ہر ہفتے یہاں تک کہ ہر روز ہوتا ہے۔