ترکی میں چار سال گزارنے کے بعد نذر نفسی کا کہنا ہے کہ بطور فارم ورکر ان کے کام نے انہیں اپنے آبائی افغانستان کے ہنگاموں سے دور زندگی گزارنے کی اجازت دی ہے۔
23 سالہ نوجوان یونان کے ساتھ ترکی کی سرحد کے قریب ایڈیرن میں مویشیوں کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ وہ اپنے بھارئی کے ساتھ پیدل سفر کرتے ہوئے ایران اور پھر ترکی پہنچا تھا۔
نذر نے کہا کہ "اگر آپ پوچھیں کہ میں کیوں آیا، افغانستان میں بہت جنگ ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ کوئی ہلاک ہو۔ ہم یہاں اپنے خاندان کو مشکل حالات میں نہ ڈالنے کے لیے آئے ہیں۔ کوئی بھی اپنی ریاست نہیں چھوڑ سکتا۔ کوئی بھی اپنے ملک کے بغیر نہیں رہ سکتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ ایک دن افغانستان کی صورتحال بہتر ہوگی اور ہم لوگ واپس اپنے ملک جا سکیں گے۔''
نذر نسلی طور پر ترکی ہے، جو شمالی افغانستان کے مزار شریف میں آباد ہوتے ہیں۔
کھیت میں محنت کرنے والا نوجوان فارم مالک کا شکرگزار ہے کیونکہ انہوں نے اسے روزگار دیا اور افغانستان میں مقیم اس کے کنبے کو بھیجنے کے لئے رقم دیتے ہیں۔
اس نے کہا کہ وہ اپنے بچوں کی طرح میری دیکھ بھال کرتے ہیں، وہ مجھے اپنے بھائیوں کی طرح دیکھتے ہیں۔
"وہ مجھے روٹی، پانی، ہر وہ چیز دیتے ہیں جس کی مجھے ضرورت ہے۔ وہ مجھے میرے پیسے دیتے ہیں (جسے) میں ہر ماہ اپنے خاندان کو بھیجتا ہوں۔"
اپنی صورت حال پر نذر کے اطمینان کے باوجود، ترکی میں 4 ملین تارکین وطن موجود ہیں، جن میں سے اکثریت شامی تارکین مزدوروں کی ہے جو بے ایمان مالکان کے استحصال کا شکار ہیں، اور طویل عرصے سے کم تنخواہ پر کام کرتے ہیں اور غیر رجسٹرڈ تارکین وطن ہونے کے باعث حکام سے شکایت بھی نہیں کر سکتے ہیں۔
وہ عام طور پر زراعت اور ٹیکسٹائل کے شعبوں میں کم تنخواہ والی ملازمتوں میں کام کرتے ہیں اور صحت اور سماجی خدمات تک ان کی رسائی نہ کے برابر ہے۔
ایڈیرن بار ایسوسی ایشن کے صدر ٹیسیٹن سیوریکایا نے کہا کہ "ایسی ملازمتوں میں کام کرنے والے افراد کو عام اجرت کے مقابلے بہت کم تنخواہ دی جاتی ہے۔"
"ان لوگوں کے پاس سماجی تحفظ نہیں ہے۔ وہ سماجی حقوق سے محروم ہیں۔ ایک شخص عام طور پر 7.5 سے 8 گھنٹے کام کرتا ہے بقیہ گھنٹے سماجی سرگرمیوں اور آرام کے لیے ہونے چاہئیں۔ میں سمجھتا ہوں ان لوگوں کو صبح پانچ یا چھ بجے سے لے کر سات یا آٹھ بجے رات تک روزانہ چھ سے سات ماہ تک بغیر کسی چھٹی کام کرانا انسانیت کے خلاف جرم ہے۔''
ترکی میں ایک اندازے کے مطابق تین لاکھ افغان باشندے ہیں اور حکومت، جو حالیہ برسوں میں ایرانی سرحد کے ساتھ سیکورٹی کو مضبوط کر رہی ہے، طالبان کے قبضے کے بعد مزید خوفزدہ ہے۔
دائیں بازو کی آئی پارٹی سے تعلق رکھنے والے اورہان کاکیرلر نے کہا کہ غیر رجسٹرڈ تارکین وطن کے رہنے اور کام کے حالات کو چیک کرنا مشکل ہے۔
انہوں نے کہا کہ"کیا وہ (غیر دستاویزی افغان ورکرز) انسانی حالات میں رہ رہے ہیں؟ کیا انہیں گودام میں ایک گوشہ دیا گیا تھا اور اس طرح کی جگہوں پر رہتے تھے؟ کیا انہیں واٹر ہیٹر دیا گیا تھا اور وہ صفائی سے رہ سکتے تھے اور مناسب جگہ پر کھا سکتے تھے؟ میں ان چیزوں کو نہیں جانتا۔ لیکن اگر ریاست نے قانونی طور پر ان لوگوں کو ورک پرمٹ نہیں دیا ہے، اگر یہ لوگ قانونی طور پر اس ملک میں داخل نہیں ہوئے ہیں تو نہ تو انسانی پہلوؤں اور نہ ہی ان کے کام کے حالات کو چیک کیا جا سکتا ہے۔''
یہ بھی پڑھیں: کابل ایئرپورٹ دھماکوں کے بدلے میں داعش پر امریکہ کا ڈرون حملہ
حالیہ ہفتوں میں ترکی میں مہاجر مخالف جذبات پرتشدد شکل اختیار کر چکے ہیں، چونکہ بڑی تعداد میں افغانی باشندے مشرقی سرحد عبور کر ترکی میں داخل ہو گئے، اس سے ترکی پر مالی بوجھ بڑھا اور پہلے سے بےروزگاری کی مار جھیل رہے ترک بانشدوں کو روزگار حاصل کرنے میں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔