یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بوریل نے پیر کو شائع ہونے والے ہسپانوی اخبار ایل پیس کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا ہم نے سوچا تھا کہ افغانستان کی وجہ سے ہمیں بہت زیادہ مہاجرین سے دوچار ہونا پڑے گا، لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہوا اور ایسا نہیں ہوگا اگر ہم ملک کی معاشی تباہی کو روکیں۔
انھوں نے کہا کہ افغان بجٹ کا 75 فیصد غیر ملکی اثاثے سے آتا ہے اور اب وہ سب منجمد ہیں جس کی وجہ سے ملک میں معاشی تباہی ہوسکتی ہے۔ ہمیں حکومت کو تسلیم کیے بغیر یا اس کی حمایت کیے بغیر اس معاشی بحران کو روکنا ہوگا۔"
یورپی یونین کے سیاستدان نے کہا کہ اگرچہ بلاک براہ راست افغانستان کو پیسہ نہیں دے سکتا، چونکہ عبوری حکومت کے کئی وزراء امریکی دہشت گردوں کی فہرست میں ہیں بلکہ امداد بلاک کے رکن ممالک اقوام متحدہ کے اداروں کے ذریعے کر سکتے ہیں۔
بوریل نے کہا "اگر ہم چاہتے ہیں کہ لڑکیاں اسکول جائیں تو پہلے وہاں اسکول ہونا ضروری ہے۔"
- یوروپی یونین نے افغانستان کو 1.2 بلین ڈالر امدادی پیکج کا اعلان کیا
- مغربی ممالک افغان اثاثے کو ریلیز کرنے کے معاملے پر خاموش: طالبان ترجمان
انہوں نے مزید اس بات پر زور دیا کہ یورپی یونین خاص طور پر افغان مہاجرین کے مسئلے پر فکر مند ہے کیونکہ ہجرت نہ صرف یونین کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے بلکہ بلاک میں سب سے بڑی تقسیم کرنے والی قوتوں میں سے ایک ہے۔
اس مہینے کے شروع میں بوریل نے کہا تھا کہ افغانستان ایک سنگین انسانی بحران کا سامنا کر رہا ہے اور ایک سماجی و اقتصادی تباہی آ رہی ہے جو خطے اور بین الاقوامی سلامتی کے لیے خطرناک ثابت ہو گی۔
بوریل نے ایک بلاگ پوسٹ میں بھی لکھا "افغانستان ایک سنگین انسانی بحران کا سامنا کر رہا ہے اور ایک سماجی و معاشی تباہی آنے والی ہے جو افغانوں ، خطے اور بین الاقوامی سلامتی کے لیے خطرناک ہوگی۔"
بوریل نے کہا تھا کہ بہت سے آثار ہیں کہ افغانستان کے حالات خراب ہو رہے ہیں۔