ETV Bharat / international

چہرے کی شناخت کا آلہ کتنا درست؟

author img

By

Published : Jul 27, 2019, 9:21 PM IST

انسانی حقوق کی تنظیم 'لیبرٹی' کا مؤقف ہے کہ چہرے کو پہچاننے والی اس تکنیک سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور اسے استعمال نہیں کیا جانا چاہئے۔

متعلقہ تصویر

برطانیہ کے ساؤتھ ویلز علاقے میں عوامی مقامات پر چہرے کی شناخت کے لیے پولیس کے ذریعہ ایک خاص قسم کے آلے کا استعمال کیا جا رہا ہے۔

اس آلے کی مدد سے سڑکوں، شاپنگ سینٹرز یا میوزک کی تقریب میں لوگوں کے چہروں کو پولیس اسکین کرسکتی ہے۔

چہرے کی شناخت کا آلہ کتنا درست؟

اس طرح چہرے کو اسکین کیے جانے کے بعد تصاویر کو پولیس کے فوٹو بینک میں شامل کر دیا جاتا ہے، جہاں ان تصاویر کو 'واچ لسٹ' کی تصویروں کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے۔

خیال رہے کہ واچ لسٹ پولیس کو مطلوب افراد کی ایک فہرست ہے جس میں 500 سے 700 تصاویر ہیں۔

برطانوی سابق وزیر ڈیوڈ ڈیوس کا کہنا ہے کہ پولیس کے ذریعہ اسکین کیا جانے والا چہرہ کسی کا بھی ہو سکتا ہے۔ وہ مطلوبہ اور مشتبہ افراد کو گرفتار کرنے کے علاوہ لاپتہ افراد کی مدد کا ایک ذریعہ بھی ہو سکتا ہے۔

پولیس کے ذریعہ 4لاکھ 50 ہزار تصویریں فوٹو بینک میں یکجا کی گئی ہیں، جنہیں سی سی ٹی وی ، سوشل میڈیا یا باڈی وورن کیمرا جیسے وسائل سے جمع کیا گیا ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے 'اسکائی نیوز' کے مطابق پولیس اس بات کا تعین کرتی ہے کہ اس تکنیک کی مدد سے 'سیکیورٹی واچ لسٹ' میں کس کو شامل کیا جانا چاہیے۔

وہیں دوسری جانب اس تکنیک کے استعمال کی وجہ سے ایک بحث پیدا ہو گئی ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیم 'لیبرٹی' کا مؤقف ہے کہ چہرے کو پہچاننے والی اس تکنیک سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور اسے استعمال نہیں کیا جانا چاہئے۔

فی الحال 'لیبرٹی' تنظیم کے ذریعہ ساؤتھ ویلز پولیس کو عدالت میں چیلنج کیا گیا ہے، جس میں دعوی کیا گیا ہے کہ چہرے کی شناخت والی تکنیک سے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

وہیں پولیس کا اپنے دفاع میں یہ کہنا ہے کہ مجرموں کو پکڑنے کے لیے چہرے کی شناخت کے طریقہ کار کو استعمال کیا جا رہا ہے۔

غور طلب ہے کہ سب سے پہلے اس آلے کا استعمال 'کارڈف' شہر میں ہونے والے یو ای ایف اے چیمپئین لیگ کے فائنل مقابلے کے دوران کیا گیا تھا۔

برطانیہ کے ساؤتھ ویلز علاقے میں عوامی مقامات پر چہرے کی شناخت کے لیے پولیس کے ذریعہ ایک خاص قسم کے آلے کا استعمال کیا جا رہا ہے۔

اس آلے کی مدد سے سڑکوں، شاپنگ سینٹرز یا میوزک کی تقریب میں لوگوں کے چہروں کو پولیس اسکین کرسکتی ہے۔

چہرے کی شناخت کا آلہ کتنا درست؟

اس طرح چہرے کو اسکین کیے جانے کے بعد تصاویر کو پولیس کے فوٹو بینک میں شامل کر دیا جاتا ہے، جہاں ان تصاویر کو 'واچ لسٹ' کی تصویروں کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے۔

خیال رہے کہ واچ لسٹ پولیس کو مطلوب افراد کی ایک فہرست ہے جس میں 500 سے 700 تصاویر ہیں۔

برطانوی سابق وزیر ڈیوڈ ڈیوس کا کہنا ہے کہ پولیس کے ذریعہ اسکین کیا جانے والا چہرہ کسی کا بھی ہو سکتا ہے۔ وہ مطلوبہ اور مشتبہ افراد کو گرفتار کرنے کے علاوہ لاپتہ افراد کی مدد کا ایک ذریعہ بھی ہو سکتا ہے۔

پولیس کے ذریعہ 4لاکھ 50 ہزار تصویریں فوٹو بینک میں یکجا کی گئی ہیں، جنہیں سی سی ٹی وی ، سوشل میڈیا یا باڈی وورن کیمرا جیسے وسائل سے جمع کیا گیا ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے 'اسکائی نیوز' کے مطابق پولیس اس بات کا تعین کرتی ہے کہ اس تکنیک کی مدد سے 'سیکیورٹی واچ لسٹ' میں کس کو شامل کیا جانا چاہیے۔

وہیں دوسری جانب اس تکنیک کے استعمال کی وجہ سے ایک بحث پیدا ہو گئی ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیم 'لیبرٹی' کا مؤقف ہے کہ چہرے کو پہچاننے والی اس تکنیک سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور اسے استعمال نہیں کیا جانا چاہئے۔

فی الحال 'لیبرٹی' تنظیم کے ذریعہ ساؤتھ ویلز پولیس کو عدالت میں چیلنج کیا گیا ہے، جس میں دعوی کیا گیا ہے کہ چہرے کی شناخت والی تکنیک سے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

وہیں پولیس کا اپنے دفاع میں یہ کہنا ہے کہ مجرموں کو پکڑنے کے لیے چہرے کی شناخت کے طریقہ کار کو استعمال کیا جا رہا ہے۔

غور طلب ہے کہ سب سے پہلے اس آلے کا استعمال 'کارڈف' شہر میں ہونے والے یو ای ایف اے چیمپئین لیگ کے فائنل مقابلے کے دوران کیا گیا تھا۔

Intro:Body:

salim


Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.