ETV Bharat / international

بوسنیا: صدیوں پرانی مذہبی روایت آج بھی برقرار - بوسنیا کے مقامی لوگ

صوبہ بوسنیا میں صدیوں سے مسلمان ایک گاؤں میں اجتماعی طور پر سالانہ زیارت کے لیے آتے ہیں۔ وہاں دعاؤں و ذکر و اذکار کا اہتمام کرتے ہیں، ایک دن یہاں گزارنے کے بعد لوگ واپس اپنے گھروں کو روانہ ہوتے ہیں۔

صدیوں پرانی مذہبی روایت جو آج بھی لوگوں میں برقرار ہے
صدیوں پرانی مذہبی روایت جو آج بھی لوگوں میں برقرار ہے
author img

By

Published : Jul 3, 2020, 10:02 PM IST

Updated : Jul 4, 2020, 7:02 AM IST

یورپی ممالک بوسنیا اینڈ ہرزیگوینہ میں صدیوں پرانی ایک روایت ہے، مسلمانوں میں مشہور یہ روایت سالانہ اجتماعی طور پر منائی جاتی ہے۔

دراصل بوسنیا کے مقامی لوگوں کو 16 ویں صدی میں خشک سالی کا سامنا تھا۔ لیکن وہ خشک سالی سے باہر نہیں نکل پارہے تھے اسی درمیان ایک مقامی بزرگ کو پاس کے پہاڑ پر ایک چشمہ دکھائی دیا، لیکن وہ چشمہ ایک پہاڑ کے پیچھے دبا ہوا تھا۔

یہ بزرگ جن کا نام اجواز ڈیڈو تھا، انہوں نے 40 روز مسلسل عبادت کی اور خدا سے خشک سالی کو دور کرنے پانی کے لیے دعائیں کی۔

صدیوں پرانی مذہبی روایت جو آج بھی لوگوں میں برقرار ہے

وہیں 40 دنوں کے بعد ایک رات ڈیڈو نماز پڑھنے کے بعد سو گئے، جب نیند سے بیدار ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ چٹان دو حصوں میں ٹوٹی ہوئی ہے اور بیچ سے چشمہ بہ رہا ہے۔

اس کرامت کے بعد سے بوسنیا اور یورپ کے آس پاس کے مسلمان سال میں ایک بار اس جگہ پر جمع ہوتے ہیں، منقسم چٹان سے گزرتے ہیں اور قریبی گھاس کے میدان میں اجتماعی دعا میں شرکت کرتے ہیں۔

رواں سال بھی صدیوں پرانی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے، سینکڑوں افراد، کچھ گھوڑ سوار، روایتی ملبوسات میں بوسنیا کے ایک گاؤں پروساک پہنچے۔

اس روایت کو دیکھنے کے لیے لوگ جون کے آخری ہفتے میں وسطی بوسنیا کے گاؤں پروساک آتے ہیں۔

تاہم، اس بار کورونا وائرس کے پیش نظر اس رویتی اجتماعی تقریب میں بہت کم لوگ شامل ہوئے۔

رواں سال بوسنیا کی سرکاری اسلامی برادری نے لوگوں سے حاضری کو محدود رکھنے، فیس ماسک پہننے اور سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کی تاکید کی تھی۔

عام طور پر پروساک کے خوبصورت جنگلات میں تقریب کے دوران لوگوں کی چہل پہل لگی رہتی تھی، لیکن اس بار لوگوں کا اتنا ہجوم نہیں تھا۔

بوسنیا کے مسلمان 16 ویں صدی کے اوائل سے ہی اس گاؤں کا دورہ کرتے ہیں۔ اور یہاں موجود چٹان کے قریب ایک دن نماز اور دعاؤں کا اہتمام کر کے گھروں کی جانب چلے جاتے ہیں۔

رواں سال ایک چھوٹے گروپ میں لوگ اس چٹان کی زیارت کرنے پہنچے، جس کے بعد دعاؤں کا اہتمام کیا گیا۔

بہت سے عقیدت مندوں نے کہا کہ انہیں کورونا وائرس وبائی امراض کے بارے میں خدشات تھے، لیکن انہوں نے پھر بھی آنے کا فیصلہ کیا۔

ایک عقیدت مند نائلہ سستیک نے کہا 'میں تھوڑی سی ڈر گئی ہوں، لیکن چونکہ بہت سارے عقیدت مندوں نے جانے کا فیصلہ کیا، لہذا میں بھی ان میں شامل ہو گئی'۔

اسلامی کمیونٹی کے ایک اعلی عہدیدار احمد عادیلوچ نے کہا 'اس پروگرام میں شامل ہونے کا فیصلہ ملک میں لاک ڈاؤن ہٹنے کے بعد مئی کے آخر میں لیا گیا تھا'۔

یورپی ممالک بوسنیا اینڈ ہرزیگوینہ میں صدیوں پرانی ایک روایت ہے، مسلمانوں میں مشہور یہ روایت سالانہ اجتماعی طور پر منائی جاتی ہے۔

دراصل بوسنیا کے مقامی لوگوں کو 16 ویں صدی میں خشک سالی کا سامنا تھا۔ لیکن وہ خشک سالی سے باہر نہیں نکل پارہے تھے اسی درمیان ایک مقامی بزرگ کو پاس کے پہاڑ پر ایک چشمہ دکھائی دیا، لیکن وہ چشمہ ایک پہاڑ کے پیچھے دبا ہوا تھا۔

یہ بزرگ جن کا نام اجواز ڈیڈو تھا، انہوں نے 40 روز مسلسل عبادت کی اور خدا سے خشک سالی کو دور کرنے پانی کے لیے دعائیں کی۔

صدیوں پرانی مذہبی روایت جو آج بھی لوگوں میں برقرار ہے

وہیں 40 دنوں کے بعد ایک رات ڈیڈو نماز پڑھنے کے بعد سو گئے، جب نیند سے بیدار ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ چٹان دو حصوں میں ٹوٹی ہوئی ہے اور بیچ سے چشمہ بہ رہا ہے۔

اس کرامت کے بعد سے بوسنیا اور یورپ کے آس پاس کے مسلمان سال میں ایک بار اس جگہ پر جمع ہوتے ہیں، منقسم چٹان سے گزرتے ہیں اور قریبی گھاس کے میدان میں اجتماعی دعا میں شرکت کرتے ہیں۔

رواں سال بھی صدیوں پرانی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے، سینکڑوں افراد، کچھ گھوڑ سوار، روایتی ملبوسات میں بوسنیا کے ایک گاؤں پروساک پہنچے۔

اس روایت کو دیکھنے کے لیے لوگ جون کے آخری ہفتے میں وسطی بوسنیا کے گاؤں پروساک آتے ہیں۔

تاہم، اس بار کورونا وائرس کے پیش نظر اس رویتی اجتماعی تقریب میں بہت کم لوگ شامل ہوئے۔

رواں سال بوسنیا کی سرکاری اسلامی برادری نے لوگوں سے حاضری کو محدود رکھنے، فیس ماسک پہننے اور سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کی تاکید کی تھی۔

عام طور پر پروساک کے خوبصورت جنگلات میں تقریب کے دوران لوگوں کی چہل پہل لگی رہتی تھی، لیکن اس بار لوگوں کا اتنا ہجوم نہیں تھا۔

بوسنیا کے مسلمان 16 ویں صدی کے اوائل سے ہی اس گاؤں کا دورہ کرتے ہیں۔ اور یہاں موجود چٹان کے قریب ایک دن نماز اور دعاؤں کا اہتمام کر کے گھروں کی جانب چلے جاتے ہیں۔

رواں سال ایک چھوٹے گروپ میں لوگ اس چٹان کی زیارت کرنے پہنچے، جس کے بعد دعاؤں کا اہتمام کیا گیا۔

بہت سے عقیدت مندوں نے کہا کہ انہیں کورونا وائرس وبائی امراض کے بارے میں خدشات تھے، لیکن انہوں نے پھر بھی آنے کا فیصلہ کیا۔

ایک عقیدت مند نائلہ سستیک نے کہا 'میں تھوڑی سی ڈر گئی ہوں، لیکن چونکہ بہت سارے عقیدت مندوں نے جانے کا فیصلہ کیا، لہذا میں بھی ان میں شامل ہو گئی'۔

اسلامی کمیونٹی کے ایک اعلی عہدیدار احمد عادیلوچ نے کہا 'اس پروگرام میں شامل ہونے کا فیصلہ ملک میں لاک ڈاؤن ہٹنے کے بعد مئی کے آخر میں لیا گیا تھا'۔

Last Updated : Jul 4, 2020, 7:02 AM IST

For All Latest Updates

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.