ETV Bharat / international

World Leaders on Taliban: افغانستان پر کنٹرول کے بعد عالمی رہنماؤں کا ردّعمل

جانسن نے کہا کہ کوئی بھی ملک نہیں چاہتا کہ افغانستان ایک بار پھر دہشت گردی کی آماجگاہ بن جائے اور ہمیں نہیں لگتا کہ یہ افغانستان کے لوگوں کے مفاد میں ہوگا کہ اسے 2001 سے پہلے جیسے حالت میں واپس ڈھکیل دیا جائے۔

World leaders react as Taliban take control of Afghanistan
طالبان کا افغانستان پر کنٹرول کے بعد عالمی رہنماؤں کا رد عمل
author img

By

Published : Aug 16, 2021, 11:56 AM IST

Updated : Aug 16, 2021, 3:56 PM IST

طالبان کے افغانستان پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے بعد عالمی رہنماؤں نے مایوسی اور صدمے کا اظہار کیا ہے کہ گزشتہ چند دنوں میں کیسے کیسے واقعات سامنے آئے اور جنگ زدہ ملک میں سکیورٹی کی کیسی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔

برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا کہ "یہ کہنا درست ہے کہ امریکہ کے انخلا کے فیصلے نے چیزوں کو تیز کیا ہےتاہم انہوں نے مغربی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ مل کر کام کریں تاکہ افغانستان کو دہشت گردی کی افزائش گاہ نہ بن سکے اور کوئی بھی افغانستان کو دہشت گردوں کی افزائش گاہ کے طور پر دیکھنا نہیں چاہتا ہے۔ "میرے خیال میں یہ بہت ضروری ہے کہ مغرب اس نئی حکومت کے ساتھ اجتماعی طور پر کام کرے چاہے وہ طالبان ہوں یا کوئی اور۔ انھوں نے کہا کہ کابل میں نئی ​​حکومت کے بارے میں ہم بالکل نہیں جانتے کہ یہ کس قسم کی حکومت ہوگی۔

جانسن نے کہا کہ کوئی بھی نہیں چاہتا کہ افغانستان ایک بار پھر دہشت گردی کی آماجگاہ بن جائے اور ہمیں نہیں لگتا کہ یہ افغانستان کے لوگوں کے مفاد میں ہے کہ اسے 2001 سے پہلے کی حالت میں واپس آنا چاہیے۔

کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ وہ افغانستان میں زمینی بحران سے دل شکستہ ہیں۔ ہم تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں۔ٹروڈو نے کہا افغان عوام آج جس صورت حال سے دوچار ہیں ہم اس سے دلبرداشتہ ہیں۔

روسی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں خارجہ امور کے سربراہ لیونڈ سلوٹسکی نے کہا کہ افغانستان کی صورت حال کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ’فوری مداخلت‘ کی ضرورت ہے اور ایک نئی انسانی تباہی کو روکنا بے حد ضروری ہے۔

آسٹریلوی وزیراعظم اسکاٹ موریسن نے کہا کہ ان کی حکومت افغانستان میں ان لوگوں کو نکالنے کی کوششوں کو دوگنا کرے گی جنہوں نے ملک میں آسٹریلیا کی کوششوں میں مدد کی ہے۔ اب ہماری توجہ اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہم ان لوگوں کی مدد جاری رکھیں جنہوں نے ہماری مدد کی ہے اور اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ 400 افراد پہلے ہی آسٹریلیا لائے جا چکے ہیں کیونکہ ہم حالیہ مہینوں میں اس پر تیزی سے کام کر رہے ہیں کیونکہ حالات تیزی سے خراب ہوتے جا رہے ہیں۔"

موریسن نے کہا۔ "ہم اپنے شراکت داروں کے ساتھ اس سلسلے میں اپنی کوشش کو دوگنا کرتے رہیں گے۔"

یہ بھی پڑھیں:

عالمی رہنماؤں کے بیانات کے باوجود امریکی صدر جو بائیڈن افغانستان سے فوج کے انخلا کے فیصلے کو درست قرار دے رہے ہیں، انھوں نے کہا کہ افغان حکومت کو کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود اپنے ملک کی حفاظت کریں۔

انھوں نے کہا کہ اگر افغان فوج اپنے ملک کو نہیں سنبھال سکتی تو پھر امریکی فوج کی موجودگی میں مزید ایک سال یا پانچ سال تک کی توسیع سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز طالبان نے کابل میں داخل ہوتے ہی پورے ملک کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔ اور ملک کے صدر اشرف غنی یہ کہتے ہوئے ملک سے فرار ہوگئے کہ وہ ملک میں خونریزی نہیں چاہتے تھے۔

طالبان کے افغانستان پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے بعد عالمی رہنماؤں نے مایوسی اور صدمے کا اظہار کیا ہے کہ گزشتہ چند دنوں میں کیسے کیسے واقعات سامنے آئے اور جنگ زدہ ملک میں سکیورٹی کی کیسی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔

برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا کہ "یہ کہنا درست ہے کہ امریکہ کے انخلا کے فیصلے نے چیزوں کو تیز کیا ہےتاہم انہوں نے مغربی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ مل کر کام کریں تاکہ افغانستان کو دہشت گردی کی افزائش گاہ نہ بن سکے اور کوئی بھی افغانستان کو دہشت گردوں کی افزائش گاہ کے طور پر دیکھنا نہیں چاہتا ہے۔ "میرے خیال میں یہ بہت ضروری ہے کہ مغرب اس نئی حکومت کے ساتھ اجتماعی طور پر کام کرے چاہے وہ طالبان ہوں یا کوئی اور۔ انھوں نے کہا کہ کابل میں نئی ​​حکومت کے بارے میں ہم بالکل نہیں جانتے کہ یہ کس قسم کی حکومت ہوگی۔

جانسن نے کہا کہ کوئی بھی نہیں چاہتا کہ افغانستان ایک بار پھر دہشت گردی کی آماجگاہ بن جائے اور ہمیں نہیں لگتا کہ یہ افغانستان کے لوگوں کے مفاد میں ہے کہ اسے 2001 سے پہلے کی حالت میں واپس آنا چاہیے۔

کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ وہ افغانستان میں زمینی بحران سے دل شکستہ ہیں۔ ہم تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں۔ٹروڈو نے کہا افغان عوام آج جس صورت حال سے دوچار ہیں ہم اس سے دلبرداشتہ ہیں۔

روسی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں خارجہ امور کے سربراہ لیونڈ سلوٹسکی نے کہا کہ افغانستان کی صورت حال کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ’فوری مداخلت‘ کی ضرورت ہے اور ایک نئی انسانی تباہی کو روکنا بے حد ضروری ہے۔

آسٹریلوی وزیراعظم اسکاٹ موریسن نے کہا کہ ان کی حکومت افغانستان میں ان لوگوں کو نکالنے کی کوششوں کو دوگنا کرے گی جنہوں نے ملک میں آسٹریلیا کی کوششوں میں مدد کی ہے۔ اب ہماری توجہ اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہم ان لوگوں کی مدد جاری رکھیں جنہوں نے ہماری مدد کی ہے اور اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ 400 افراد پہلے ہی آسٹریلیا لائے جا چکے ہیں کیونکہ ہم حالیہ مہینوں میں اس پر تیزی سے کام کر رہے ہیں کیونکہ حالات تیزی سے خراب ہوتے جا رہے ہیں۔"

موریسن نے کہا۔ "ہم اپنے شراکت داروں کے ساتھ اس سلسلے میں اپنی کوشش کو دوگنا کرتے رہیں گے۔"

یہ بھی پڑھیں:

عالمی رہنماؤں کے بیانات کے باوجود امریکی صدر جو بائیڈن افغانستان سے فوج کے انخلا کے فیصلے کو درست قرار دے رہے ہیں، انھوں نے کہا کہ افغان حکومت کو کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود اپنے ملک کی حفاظت کریں۔

انھوں نے کہا کہ اگر افغان فوج اپنے ملک کو نہیں سنبھال سکتی تو پھر امریکی فوج کی موجودگی میں مزید ایک سال یا پانچ سال تک کی توسیع سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز طالبان نے کابل میں داخل ہوتے ہی پورے ملک کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔ اور ملک کے صدر اشرف غنی یہ کہتے ہوئے ملک سے فرار ہوگئے کہ وہ ملک میں خونریزی نہیں چاہتے تھے۔

Last Updated : Aug 16, 2021, 3:56 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.