ETV Bharat / international

فضائی آلودگی سے پاک چینی شہر شنزہن کی عالمی شہرت

ایک جانب دنیا میں فضائی آلودگی کا مسئلہ درد سر بنا ہوا ہے تو دوسری جانب چین کا شنزہن شہر فضائی آلودگی سے پاک کرایا دیا گیا ہے اور آلودگی سے پاک کرنے کی اس حکمت عملی کو اب لندن اور نیویارک جیسے بڑے شہروں کی انتظامیہ بھی اپنانے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔

فضائی آلودگی سے پاک چینی شہر شنزہن
فضائی آلودگی سے پاک چینی شہر شنزہن
author img

By

Published : Jan 13, 2020, 6:16 PM IST

کسی بھی شہری ٹرانسپورٹ نظام کا تصور کیجئے، سڑکوں پر دوڑتے ہوئے ہوا میں دھواں اڑاتی اور شور مچاتی بھاری گاڑیاں نظروں میں آجاتی ہیں، یہاں تک کہ ان شہروں میں بھی کہ جہاں اب میٹرو ریل کا نظام مستحکم ہوچکا ہے، عام ٹرانسپورٹ کا یہ مسئلہ موجود ہے تاہم دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والے ملک چین کے شہر شنزہن کا منظر نامہ ان سب کے برعکس ہے، وہاں کا ٹرانسپورٹ نظام پوری دنیا کو ایک جدید راستہ دکھاتا ہے، بس اور ٹیکسیاں زیادہ تر لوگوں کے لیے سفر کا بنیادی ذریعہ ہیں اور یہ دنیا کے لیے بالخصوص میٹرو شہروں کے لیے جو ماحولیاتی آلودگی کو قابو کرنا چاہتے ہیں،قوتِ حرکت ہے۔

  • حکومت کی پہل

محض 40 برسوں قبل تک شنزہن ہانگ کانگ کے نزدیک مچھلیاں پکڑنے کے لیے جانا جاتا رہا ایک گاؤں تھا تاہم اب یہ ایک عظیم شہر میں بدل چکا ہے جہاں کی آبادی تقریباً دو کروڑ ہے۔

چینی حکومت نے اس شہر میں عوامی ٹرانسپورٹ کو بہترین بنانے اور آلودگی سے پاک کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر مناسب منصوبہ بندی کرکے دس برس کے وقفے میں اس ہدف کو حاصل کرلیا۔

شنزہن میں 17 ہزار بسیں اور 20 ہزار ٹیکسیاں ہیں، اپنی گاڑیوں میں سفر کرنے والوں کو چھوڑ کر یہاں روزانہ 20 لاکھ لوگ سفر کرتے ہیں، دس برس قبل شنزہن کے لوگ اس شہر میں رہنے کو لے کر خوفزدہ تھے کیونکہ فضائی آلودگی ان کی صحت کے لیے ایک بڑاخطرہ بنی ہوئی تھی۔

چینی حکومت نے مختلف متبادل کی کھوج کی اور سنہ 2011 میں شہر کے ٹرانسپورٹ نظام میں پیلی الیکٹرک بس متعارف کرائی، چنانچہ حکومت نے ماحولیاتی آلودگی کے اقدامات کیے اور دوسری جانب لوگوں نے بھی ان اقدامات کا خیر مقدم کیا، یہاں تک کہ اپنی گاڑیاں رکھنے والوں نے بھی عام ٹرانسپورٹ کا استعمال شروع کیا۔

اس عمل سے شنزہن دیکھتے ہی دیکھتے ماحولیاتی آلودگی سے پاک اور ایک مزے دار رہائشی ماحول والا شہر بن گیا۔

ایک دہائی میں شہر کا ماحول اتنا تبدیل ہوگیا کہ آج بھی پوری دنیا انتہائی دلچسپی کے ساتھ اس شہر کی جانب دیکھ رہی ہے۔

ٹرانسپورٹ نظام میں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی آمد سے شنزہن میں لوگوں نے ایک اور نمایاں تبدیلی یہ محسوس کی کہ انہیں بسوں کے پریشان کر دینے والے شور شرابے سے نجات ملی۔

اس شہر میں جہاں گاڑیوں سے نکلنے والے دھویں سے چھٹکارا حاصل کیا گیا وہیں گاڑیوں کے چلنے سے پیدا ہونے والی صوتی آلودگی کا مسئلہ بھی پوری طرح قابو میں ہے، بلکہ اس حوالے سے شنزہن کے شہری ایک عجیب بلکہ مزاحیہ صورتحال سے دوچار ہیں، انہیں لگتا ہے کہ خاموشی کے ساتھ چلنے والی گاڑیاں خطرناک ہیں لہٰذا وہ چاہتے ہیں کہ گاڑیوں سے کم از کم اتنی آواز آئے کہ جس سے ان کی آمد معلوم پڑتی ہو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شہر کی صورتحال کس حد تک بدل چکی ہے۔

حکومت لوگوں کے اس مطالبے کی منظوری پر مستعدی کے ساتھ غور و خوض کر رہی ہے، حکومت کے ان اقدامات سے نہ صرف ماحولیاتی آلودگی کو قابو کیا گیا ہے بلکہ ایندھن پر ہونے والے اخراجات کو نصف کیا گیا ہے۔

بجلی پر چلنے والی گاڑیوں کے استعمال سے سالانہ 1.60 لاکھ ٹن کوئلے کی کھپت کم ہوچکی ہے اور یوں ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ساڑھے چالیس لاکھ ٹن کی ملاوٹ روکی گئی اور ساتھ ہی نائٹروجن آکسائیڈ اور ہائیڈرو کاربن کے اخراج کو نمایاں طور پر اس حد تک کم کیا گیا ہے کہ ماحول بالکل خالص بن چکا ہے لیکن یہ سب کچھ مفت میں بھی نہیں ہوا بلکہ ایسا ایک بھاری قیمت پر ہوا، ہر ایک الیکٹرک بس کی خریداری پر 18 لاکھ یوان (تقریباً 1.85 کروڑ ہندوستانی روپے)خرچ کرنا پڑے ہیں، ان رقومات کے نصف پر چینی حکومت نے سبسڈی دی جبکہ ٹرانسپورٹ کے اس نئے نظام کو مقبول کرانے کے لیے ٹکٹ کی قیمتیں کم کردی گئیں، سرکار کے ساتھ ساتھ مقامی کمپنیوں نے بھی اس مہم میں اپنا حصہ ڈال کر اسے کامیاب بنادیا۔

حکومت نے بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کو متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ ان گاڑیوں کے بلا خلل آپریشن کو ممکن بنانے اور ان میں کوئی مسئلہ پیدا نہ ہو، اس کے لیے کئی طرح کی احتیاط برتی ہے۔

گاڑیوں کی بیٹریز کو چارج کرنے کے لیے ٹھیک اسی طرح شہر کے 180 ڈیپوز میں چارجنگ اسٹیشن قائم کئے گئے ہیں کہ جس طرح عام گاڑیوں کے لیے پیٹرول پمپ ہوتے ہیں، دو گھنٹوں کے لیے چارج رکھنے کے بعد ایک گاڑی دو سو کلومیٹر کا سفر طے کرسکتی ہے، ان چارجنگ اسٹیشنز پر نہ صرف بسوں کو بلکہ ٹیکسیوں کو بھی چارج کرنے کی سہولت بھی ہے اور ایک موبائل اپلی کیشن بنا کر ڈرائیورز کے لیے یہ سہولت بھی رکھی گئی ہے کہ وہ دورانِ سفر بھی چارجنگ اسٹیشن کی دستیابی کے بارے میں معلوم کرسکیں۔

شنزہن شہر کی اس کایا پلٹ سے متاثر ہو کر چینی حکومت اب اس ماڈل کو مزید 30 شہروں میں آزمانا چاہتی ہے جبکہ دوسری جانب نیویارک اور لندن جیسے دنیا کے بڑے شہروں میں آئندہ 20 برسوں کے اندر عام ٹرانسپورٹ کو پوری طرح بجلی پر چلائے جانے کی منصوبہ بندی جاری ہے۔

کسی بھی شہری ٹرانسپورٹ نظام کا تصور کیجئے، سڑکوں پر دوڑتے ہوئے ہوا میں دھواں اڑاتی اور شور مچاتی بھاری گاڑیاں نظروں میں آجاتی ہیں، یہاں تک کہ ان شہروں میں بھی کہ جہاں اب میٹرو ریل کا نظام مستحکم ہوچکا ہے، عام ٹرانسپورٹ کا یہ مسئلہ موجود ہے تاہم دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والے ملک چین کے شہر شنزہن کا منظر نامہ ان سب کے برعکس ہے، وہاں کا ٹرانسپورٹ نظام پوری دنیا کو ایک جدید راستہ دکھاتا ہے، بس اور ٹیکسیاں زیادہ تر لوگوں کے لیے سفر کا بنیادی ذریعہ ہیں اور یہ دنیا کے لیے بالخصوص میٹرو شہروں کے لیے جو ماحولیاتی آلودگی کو قابو کرنا چاہتے ہیں،قوتِ حرکت ہے۔

  • حکومت کی پہل

محض 40 برسوں قبل تک شنزہن ہانگ کانگ کے نزدیک مچھلیاں پکڑنے کے لیے جانا جاتا رہا ایک گاؤں تھا تاہم اب یہ ایک عظیم شہر میں بدل چکا ہے جہاں کی آبادی تقریباً دو کروڑ ہے۔

چینی حکومت نے اس شہر میں عوامی ٹرانسپورٹ کو بہترین بنانے اور آلودگی سے پاک کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر مناسب منصوبہ بندی کرکے دس برس کے وقفے میں اس ہدف کو حاصل کرلیا۔

شنزہن میں 17 ہزار بسیں اور 20 ہزار ٹیکسیاں ہیں، اپنی گاڑیوں میں سفر کرنے والوں کو چھوڑ کر یہاں روزانہ 20 لاکھ لوگ سفر کرتے ہیں، دس برس قبل شنزہن کے لوگ اس شہر میں رہنے کو لے کر خوفزدہ تھے کیونکہ فضائی آلودگی ان کی صحت کے لیے ایک بڑاخطرہ بنی ہوئی تھی۔

چینی حکومت نے مختلف متبادل کی کھوج کی اور سنہ 2011 میں شہر کے ٹرانسپورٹ نظام میں پیلی الیکٹرک بس متعارف کرائی، چنانچہ حکومت نے ماحولیاتی آلودگی کے اقدامات کیے اور دوسری جانب لوگوں نے بھی ان اقدامات کا خیر مقدم کیا، یہاں تک کہ اپنی گاڑیاں رکھنے والوں نے بھی عام ٹرانسپورٹ کا استعمال شروع کیا۔

اس عمل سے شنزہن دیکھتے ہی دیکھتے ماحولیاتی آلودگی سے پاک اور ایک مزے دار رہائشی ماحول والا شہر بن گیا۔

ایک دہائی میں شہر کا ماحول اتنا تبدیل ہوگیا کہ آج بھی پوری دنیا انتہائی دلچسپی کے ساتھ اس شہر کی جانب دیکھ رہی ہے۔

ٹرانسپورٹ نظام میں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی آمد سے شنزہن میں لوگوں نے ایک اور نمایاں تبدیلی یہ محسوس کی کہ انہیں بسوں کے پریشان کر دینے والے شور شرابے سے نجات ملی۔

اس شہر میں جہاں گاڑیوں سے نکلنے والے دھویں سے چھٹکارا حاصل کیا گیا وہیں گاڑیوں کے چلنے سے پیدا ہونے والی صوتی آلودگی کا مسئلہ بھی پوری طرح قابو میں ہے، بلکہ اس حوالے سے شنزہن کے شہری ایک عجیب بلکہ مزاحیہ صورتحال سے دوچار ہیں، انہیں لگتا ہے کہ خاموشی کے ساتھ چلنے والی گاڑیاں خطرناک ہیں لہٰذا وہ چاہتے ہیں کہ گاڑیوں سے کم از کم اتنی آواز آئے کہ جس سے ان کی آمد معلوم پڑتی ہو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شہر کی صورتحال کس حد تک بدل چکی ہے۔

حکومت لوگوں کے اس مطالبے کی منظوری پر مستعدی کے ساتھ غور و خوض کر رہی ہے، حکومت کے ان اقدامات سے نہ صرف ماحولیاتی آلودگی کو قابو کیا گیا ہے بلکہ ایندھن پر ہونے والے اخراجات کو نصف کیا گیا ہے۔

بجلی پر چلنے والی گاڑیوں کے استعمال سے سالانہ 1.60 لاکھ ٹن کوئلے کی کھپت کم ہوچکی ہے اور یوں ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ساڑھے چالیس لاکھ ٹن کی ملاوٹ روکی گئی اور ساتھ ہی نائٹروجن آکسائیڈ اور ہائیڈرو کاربن کے اخراج کو نمایاں طور پر اس حد تک کم کیا گیا ہے کہ ماحول بالکل خالص بن چکا ہے لیکن یہ سب کچھ مفت میں بھی نہیں ہوا بلکہ ایسا ایک بھاری قیمت پر ہوا، ہر ایک الیکٹرک بس کی خریداری پر 18 لاکھ یوان (تقریباً 1.85 کروڑ ہندوستانی روپے)خرچ کرنا پڑے ہیں، ان رقومات کے نصف پر چینی حکومت نے سبسڈی دی جبکہ ٹرانسپورٹ کے اس نئے نظام کو مقبول کرانے کے لیے ٹکٹ کی قیمتیں کم کردی گئیں، سرکار کے ساتھ ساتھ مقامی کمپنیوں نے بھی اس مہم میں اپنا حصہ ڈال کر اسے کامیاب بنادیا۔

حکومت نے بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کو متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ ان گاڑیوں کے بلا خلل آپریشن کو ممکن بنانے اور ان میں کوئی مسئلہ پیدا نہ ہو، اس کے لیے کئی طرح کی احتیاط برتی ہے۔

گاڑیوں کی بیٹریز کو چارج کرنے کے لیے ٹھیک اسی طرح شہر کے 180 ڈیپوز میں چارجنگ اسٹیشن قائم کئے گئے ہیں کہ جس طرح عام گاڑیوں کے لیے پیٹرول پمپ ہوتے ہیں، دو گھنٹوں کے لیے چارج رکھنے کے بعد ایک گاڑی دو سو کلومیٹر کا سفر طے کرسکتی ہے، ان چارجنگ اسٹیشنز پر نہ صرف بسوں کو بلکہ ٹیکسیوں کو بھی چارج کرنے کی سہولت بھی ہے اور ایک موبائل اپلی کیشن بنا کر ڈرائیورز کے لیے یہ سہولت بھی رکھی گئی ہے کہ وہ دورانِ سفر بھی چارجنگ اسٹیشن کی دستیابی کے بارے میں معلوم کرسکیں۔

شنزہن شہر کی اس کایا پلٹ سے متاثر ہو کر چینی حکومت اب اس ماڈل کو مزید 30 شہروں میں آزمانا چاہتی ہے جبکہ دوسری جانب نیویارک اور لندن جیسے دنیا کے بڑے شہروں میں آئندہ 20 برسوں کے اندر عام ٹرانسپورٹ کو پوری طرح بجلی پر چلائے جانے کی منصوبہ بندی جاری ہے۔

Intro:Body:Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.