افغانستان کی مقامی میڈیا کے مطابق بدھ کے روز ملک کے دارالحکومت کابل میں خواتین نے ایک احتجاجی مظاہرہ Women Protest in Kabul کیا اور مرکزی بینک کے منجمد اثاثوں کو ریلیز کرنے کا مطالبہ Demand Release of Afghan Assets کیا۔
طلوع نیوز نے ٹویٹ کیا کہ خواتین مظاہرین نے بین الاقوامی برادری سے امارت اسلامیہ افغانستان کو تسلیم کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ افغان اثاثوں Afghan Assets کی روک تھام سے افغانستان کے عوام متاثر ہو رہے ہیں جو شدید معاشی چیلنجز سے نبرد آزما ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار تاجار کاکڑ نے کہا تھا، "سردی اپنے عروج پر ہے، لوگوں کی حالت بہت خراب ہے اور کئی جانیں خیمے کے نیچے ہیں۔ بچوں کی حالت تشویشناک ہے۔ دنیا کو افغانستان کے لوگوں کے بارے میں سوچنا چاہیے۔
اس سے قبل قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے امریکی کانگریس کو ایک خط بھیجا تھا جس میں ملک میں شدید معاشی اور انسانی بحران کا حوالہ دیتے ہوئے قانون سازوں سے افغان اثاثے آزاد کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔
اس خط کے جواب میں افغانستان کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی تھامس ویسٹ نے کہا تھا کہ ’طالبان کے خط‘ نے ملک کے معاشی اور انسانی بحران سے متعلق حقائق کو غلط انداز میں پیش کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: Afghan Frozen Assets in US: افغان خواتین کا امریکہ میں منجمد اثاثوں کو ریلیز کرنے کا مطالبہ
افغانستان میں انسانی صورت حال ابتر ہوتی جا رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ طالبان کے ملک پر قبضہ کرنے کے بعد سے سکیورٹی کی صورتحال بھی ابتر ہو گئی ہے۔
اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری کارروائی نہ کی گئی تو لاکھوں افغانوں کو اس موسم سرما میں بھوک کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تقریبا 23 ملین افراد یا افغان آبادی کا 55 فیصد کا تخمینہ ہے کہ وہ بحران کا شکار ہیں یا اگلے سال کے مارچ کے درمیان خوراک کے عدم تحفظ کی ہنگامی سطح کا سامنا کر رہے ہیں۔
اپنی تازہ ترین صورتحال کی رپورٹ میں، اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ برائے انسانی امور (OCHA) نے "مشروط انسانی ہمدردی" یا سیاسی مقاصد کے لیے انسانی امداد کو استعمال کرنے کی کوششوں پر تشویش کا اظہار کیا۔