آج کل شمالی شام میں ترکی کی فوجی کارروائی مسلسل خبروں میں ہے۔ لیکن ترکی ایسا کیوں کر رہا ہے۔ کس کے خلاف کر رہا ہے۔ ترکی کی اس کارروائی میں امریکہ کیوں دخل اندازی کر رہا ہے؟ یہ سبھی باتیں جائیے اس خصوصی رپورٹ میں۔
در اصل مشرق وسطی یعنی مڈل ایسٹ 17 ممالک کا مجموعہ ہے، جن میں ترکی اور سیریا دونوں شامل ہیں۔ دونوں کی سرحدیں ایک دوسرے سے متصل ہیں۔ اور دونوں ملکوں میں ایک نسلی جماعت رہتی ہے، جسے کُرد کہتے ہیں۔ یہی کرد اس جنگ کا سبب بنے ہوئے ہیں۔
پہلی جنگ عظیم میں عثمانی حکومت کی شکست کے بعد سنہ 1923 میں عرب ممالک کے درمیان سرحدی نظام قائم کیا گیا، اور سبھی نسلی جماعتوں کو ان کی شناخت کے اعتبار سے ممالک دیے گئے، تاہم کردوں کو کوئی ملک نہیں مل سکا۔
اس کے بعد سے ہی کرد نسل کے لوگ آج تک اپنی علیحدہ ریاست کے قیام کے لیے بر سر پیکار ہیں۔
پوری دنیا میں کردوں کی آبادی تقریبا ساڑھے تین کروڑ بتائی جاتی ہے۔ یہ مختلف ممالک جیسے عراق، ایران، آرمینیا، ترکی اور شام میں آباد ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ ڈیڑھ کروڑ کی آبادی ترکی میں ہے۔
یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن ترکی نے شام میں حملہ کیوں کیا ہے؟
در اصل پوری کہانی اسی سوال کا جواب ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ عراق، ایران آرمینیا اور ترکی کی طرح تقریبا 20 لاکھ کردوں کی آبادی شمالی شام میں بھی ہے۔ کرد جنگجووں نے شامی حکومت سے جنگ کر کے ترکی کی سرحد سے متصل شام کے متعدد علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ ان کا مقصد ہے کہ جس طرح ترک نسل کے لیے ترکی، فارسیوں کے لیے ایران اور عربوں کے لیے عرب ممالک کا قیام کیا گیا ہے، اسی طرح وہ کردوں کے لیے بھی ایک آزاد ریاست قائم کریں گے۔
اسی مقصد کے تحت سنہ 2012 میں کردوں نے 'کرد پروٹیکشن یونٹ' یعنی وائی پی جی نامی ایک تنظیم کی بنیاد بھی ڈالی۔ کرد یہاں جد و جہد کر ہی رہے تھے کہ اسی دوران 'آئی ایس آئی ایس' نامی شدت پسند تنظیم ابھر کر سامنے آ گئی اور امریکہ نے سنہ 2014 میں آئی ایس سے مقابلے کے لیے 2 ہزار کی خصوصی فوج شام میں اتار کر سنہ 2015 میں کردوں اور شامی عرب جنگجووں کی 50 ہزار افراد پر مشتمل ایک فورس تشکیل دی جسے 'سیرین ڈیموکریٹک فورسز' کا نام دیا گیا۔
در اصل امریکہ شام میں ایک ایسی فورس کھڑی کرنا چاہتا تھا جو آئی ایس کو ختم کرنے کے بعد بشارالاسد حکومت کو بھی گرا دے، کیوں کہ بشارالاسد امریکہ کے بجائے روس کو اپنا دوست مانتے ہیں۔
امریکہ نے کردوں کو کیوں منتخب کیا؟
در اصل کرد ایک جنگجو قوم کا نام ہے۔ آپ نے سلطان صلاح الدین ایوبی کا نام تو سنا ہی ہو گا۔ وہ اسی کرد نسل سے تعلق رکھتے تھے۔
بہر حال امریکہ نے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی غرض سے کردوں کی طاقت کا استعمال کیا اور انہیں ہتھیار اور ٹریننگ دے کر ایک بڑی جنگ کے لیے تیار کر دیا۔
بالآخر سنہ 2017 میں 'سیرین ڈیموکریٹک فورسز' نے آئی ایس کا خاتمہ کر دیا، لیکن بشارالاسد کے پیچھے روسی طاقت ہونے کی وجہ سے امریکہ کا دوسرا مقصد حاصل نہیں ہو سکا۔ گویا امریکہ اپنے مقصد میں محض 50 فیصد ہی کامیاب رہا۔
اب جب امریکہ کو محسوس ہوا کہ بشارالاسد کی حکومت کو روس کی حمایت کی وجہ سے گرانا ممکن نہیں ہے، تو امریکہ نے شام سے اپنی فوجیں نکالنے کا فیصلہ کر لیا۔
ادھر ترکی نے سنہ 2017 میں آئی ایس کے خلاف کردوں کی جنگی صلاحیت کو دیکھنے کے بعد محسوس کیا کہ شام میں کرد جنگجو ہتھیار اور ٹریننگ کے لحاظ سے انتہائی مضبوط حالت میں ہیں۔ اس لیے شام میں اپنی ریاست کے قیام کے فورا بعد ترکی کا رخ کریں گے، اور ترکی میں موجود ڈیڑھ کروڑ کرد نسل کو اکسا کر ترکی میں بھی خانہ جنگی کی نوبت پیدا کر دیں گے۔
اس لیے 9 اکتوبر سنہ 2019 کو جیسے ہی امریکہ نے شام سے اپنی فوجیں نکالنے کا فیصلہ کیا، فوری طور پر ترکی نے اسی روز شامی کردوں کے خلاف کارروائی کے لیے اپنی فوجیں کردوں کے علاقوں میں بھیجنا شروع کر دیا۔
آپ کو بتا دیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 9 اکتوبر کو سیریا سے امریکی فوجیں نکالنے کے بعد ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کو ایک خط لکھا تھا، کیوں کہ اس خط میں 9 اکتوبر کی تاریخ درج ہے۔
خط میں ٹرمپ نے اردگان کو لکھا تھا کہ 'زیادہ بڑا بننے کی کوشش نہ کرو اور بے وقوفی مت کرو'۔ لیکن اردگان نے اس خط کو کوڑے دان میں ڈال دیا تھا۔
اس خط کے موصول ہونے کے بعد ہی ترکی نے شمالی شام کے کرد علاقوں پر کارروائی کا آغاز کر دیا۔ بعد ازاں شام سے امریکی افواج کے انخلا پر صدر ٹرمپ کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
لوگوں کا ماننا ہے کہ امریکہ اس سلسلے میں اداکاری کر رہا ہے، کیوں کہ اسی نے ترکی کو کردوں کے خلاف کارروائی کا گرین سگنل دیا تھا۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ ٹرمپ نے اس دوران کہا تھا کہ کردوں کے خلاف ترکی کی فوجی کارروائی میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے، کیوں کہ کرد جنگجو کوئی فرشتے نہیں ہیں۔
ترکی کی فوجی کارروائی کا مقصد کیا ہے؟
ترکی شام کی سرحد کے اندر تقریبا 115 کلومیٹر طویل سرحدی لمبی پٹی پر 40 کلو میٹر عرض میں ایک ایسا علاقہ تیار کرنا چاہتا ہے جہاں کردوں کا عمل دخل نہ ہو۔ تاکہ ترکی میں 35 لاکھ شامی پناہ گزینوں کو اس محفوظ علاقے میں بسایا جا سکے۔ ترکی نے اس علاقے کو 'سیف زون' کا نام دیا ہے۔
ترکی چاہتا ہے کہ شامی کرد سرحدی علاقے سے دور شام کے درمیانی علاقوں میں چلے جائیں، لیکن کرد عسکریت پسند پوری قوت کے ساتھ ترکی کی فوج کے ساتھ برسرپیکار ہیں۔
اب دیکھنے والی بات یہ ہو گی کہ کیا ترکی اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو پاتا ہے، یا پھر بین الاقوامی دباو میں اسے اپنا منصوبہ ترک کرنا پڑ جائے گا۔ فی الحال ترکی نے ہر حال میں اپنے منصوبے کے تحت کارروائی جاری رکھنے کی بات کہی ہے۔
ترکی کی کارروائی پر بشارالاسد کی حکومت خاموش کیوں ہے؟
در اصل کرد کمیونٹی کے لوگ بشارالاسد حکومت کے خلاف بغاوت پر آمادہ ہوئے تھے، اور شامی حکومت کا تختہ پلٹنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن شامی فوج نے کردوں سے جنگ لڑی، اور انہیں ان کے مشن میں ناکام بنا دیا، تاہم کردوں نے ترکی کے سرحد کے قریب شامی علاقوں پر اپنا زبردست کنٹرول قائم کر لیا۔
اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ کرد عسکریت پسند بشارالاسد کی حکومت کے لیے ایک چیلنج بنے ہوئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ترکی کی کردوں کے خلاف کارروائی پر شامی حکومت خاموش ہے۔ کیوں کہ شامی حکومت کو بیٹھے بٹھائے ترک فوج کی شکل میں ایک ایسا موقع مل گیا ہے، جس سے کردوں کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ اور بشارالاسد یہی چاہتے تھے۔
ترکی کی کارروائی میں کس کو فائدہ کس کو نقصان؟
اس کارروائی میں بشارالاسد کو فائدہ ہوا ہے، کیوں کہ کردوں کے خلاف کارروائی سے کرد کمزور ہوں گے اور ان کی حکومت کو استحکام ہو جائے گا۔
ترکی کو بھی فائدہ ہو گا، کیوں کہ اگر ترکی شامی کردوں کے حوصلے توڑنے میں کامیاب رہا تو ترکی میں موجود ڈیڑھ کروڑ کردوں کے حوصلے بھی ٹوٹیں گے، اور یہ ترکی حکومت کے لیے کسی بڑی حصول یابی سے کم نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ترکی شامی مہاجرین کو منتقل کرنے میں بھی کامیاب ہو جائے گا۔
اس کے ساتھ ہی کردوں کو ترکی کی سرحد سے ہٹا کر شام اور ترکی کے کردوں کے درمیان رابطہ بھی ختم کر دیگا۔ کیوں کہ درمیان میں سیف زون ہونے کے سبب شامی کرد ترکی کے کردوں سے براہ راست کوئی رابطہ نہیں کر سکیں گے۔ اس لیے ترکی کا یہ بھی مقصد حاصل ہو جائے گا۔
اس سے امریکہ کو نقصان ہو گا۔ کیوں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اقدام یعنی کردوں کے ساتھ امریکہ کی اعتماد شکنی کا پوری دنیا پر منفی اثر پڑے گا۔ دنیا کی کوئی بھی بڑی طاقت امریکہ کا اتحادی بننے کے لیے کئی بار سوچے گی۔
اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ اس عمل سے مستقبل میں امریکہ کو شدید نقصان کا سامنا اٹھانا پڑے گا۔
ترکی کا یورپین یونین کو چیلنج۔
جیسے ہی یورپین یونین نے ترکی کو شمالی شام پر فوجی کارروائی روکنے سے متعلق کہا، اردگان نے جواب دیا کہ ترکی چاہتا ہے کہ شام کے 'سیف زون' میں ترکی میں موجود لاکھوں شامی مہاجرین کو بسایا جائے، لیکن اگر یورپین یونین کو فوجی کارروائی سے اعتراض ہے تو وہ یورپ میں شامی پناہ گزینوں کو بلا لے، اور وہیں پناہ دے دے۔ کیوں کہ 30 لاکھ سے زائد مہاجرین کو ترکی برداشت نہیں کر سکتا ہے۔
کون کون ممالک اس کارروائی کے خلاف ہیں؟
ترکی کی فوجی کارروائی کی مخالفت سب سے پہلے یورپین یونین نے کی تھی۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ، مصر اور سعودی عرب بھی کارروائی کے خلاف ہیں۔
کون کون ممالک کارروائی کے حق میں ہیں؟
جیسا کہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ امریکہ اس معاملے میں اداکاری کر رہا، اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ اس کاررائی کے حق میں ہے۔ اس کے علاوہ روس اور بذات خود شامی حکومت بھی کردوں کے خلاف کارروائی کے حق میں ہے۔
غور طلب ہے کہ ترکی اپنے جغرافیائی لحاظ سے ایک اہم ترین ملک ہے، لیکن کردوں کی بغاوت، امریکہ اور یورپ سے کشیدگی اور پڑوسی ممالک کے ساتھ اس کے خراب تعلقات ترکی کے لیے مستقبل میں مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔
اتنا سمجھنے کے بعد یہ واضح ہو گیا ہو گا کہ ترکی شام میں کردوں کے خلاف کیوں کارروائی کر رہا ہے۔ امریکہ نے کیوں مداخلت کی تھی، اور اس نے شام سے اپنی فوجیں نکالنے کا فیصلہ کیوں کیا۔ اور کرد جنگجو کیوں لڑ رہے ہیں۔
پہلی جنگ عظیم میں ترکی کی شکست کے بعد نئے نئے ممالک تو بن گئے، لیکن کرد نسل کے لوگ آج بھی اپنے وجود کے لیے مسلسل جد و جہد کر رہے ہیں۔
فی الحال عراق، ترکی اور شام میں کرد اپنی الگ ریاست کردستان کے قیام کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن ان کی ایک مرکزی تنظیم نہ ہونے کے سبب اپنے اپنے طریقے سے جد و جہد کر رہے ہیں۔ لیکن فی الحال رفتہ رفتہ بین الاقوامی سطح پر کردوں کے تعلق سے ہمدردی میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے، لیکن دیکھنے والی بات ہو گی کہ انہیں اپنے مقصد میں کب کامیابی ملتی ہے۔