ETV Bharat / international

کابل ایئر پورٹ کی نگرانی کے لیے ترکی، پاکستان کی مدد کا خواہاں، بھارت کی پریشانی میں اضافہ - کابل ایئرپورٹ

سینئر صحافی سنجیب کمار بروا لکھتے ہیں کہ افغانستان میں ابھر رہا ترکی-پاکستان کا نیا محور بھارت کے لیے پریشانی کا سبب بن سکتا ہے۔

Turkey to man Kabul airport, seeks Pak help, India in hitch
کابل ایئر پورٹ کی حفاظت کے لیے ترکی، پاکستان کی مدد کا خواہاں، بھارت کی پریشانی میں اضافہ
author img

By

Published : Jun 23, 2021, 6:22 PM IST

Updated : Jun 23, 2021, 10:50 PM IST

امریکہ اور ترکی کے مابین تعلقات میں بہتری کی علامت کے طور پر، کابل کے حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے کو ہینڈل کرنے کے معاملے پر بات چیت کرنے کے لیے دونوں ممالک کے اعلی حکام جمعرات (24 جون) کو ملاقات کر سکتے ہیں۔ امریکی افواج 11 ستمبر 2021 افغانستان سے مکمل طور پر نکل جائیں گی۔ ایسے میں

کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کی اسٹریٹجک اہمیت کے پیش نظر اس کی دیکھ ریکھ اور سیکورٹی موضوع بحث ہے۔

کابل ایئر پورٹ کو جو چیز کافی اہم بناتی ہے وہ یہ ہے کہ چہار جانب سرحدوں سے گھرا ہوئے افغانستان میں انسانوں اور سامانوں کی نقل و حمل کے لیے کابل ایئرپورٹ ہی سپلائی کا سب سے اہم راستہ ہے۔ آس پاس کے علاقوں سے کابل تک بذریعہ روڈ کا راستہ خطے کی ساخت کی وجہ سے انتہائی دشوار کن ہے، اسی وجہ سے طالبان کو تازہ حملوں میں افغان حکومت پر غلبہ حاصل ہو رہا ہے۔

ترکی کے تقریباً 500 فوجی پہلے سے ہی کابل ایئرپورٹ پر غیر جنگی ڈیوٹی پر تعینات ہیں۔ ترکی کے یہ فوجی 2001 میں افغانستان میں ناٹو افواج کے ساتھ غیر جنگی مشن کے تحت افغانستان میں داخل ہوئے تھے۔

اسی کے ساتھ یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ ترکی نے افغان حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کی میزبانی کی پیش کش بھی کی ہے، یہ دونوں باتیں دو الگ الگ اشارے کر رہی ہیں۔

ایک یہ کہ ترکی روسیوں سے ایس -400 دفاعی نظام کی خریداری کے ناٹو کے ساتھ بگڑتے تعلقات کے درمیان وہ اس کے ذریعہ نیٹو کے اہم اتحادی کی حیثیت سے اپنی پوزیشن مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ صدر بائیڈن بعض دیگر امور کے تعلق سے بھی ترکی کو تنقید کا نشانہ بتاتے رہے ہیں۔ اگر ترکی کابل ایئرپورٹ کی نگرانی کا کام سنبھال لیتا ہے تو موجودہ ترک حکومت اتحاد میں اپنی اہمیت کو ثابت کیے بنا نیٹو میں اپنی پوزیشن اچھی بنا لے گی۔


دوسری بات یہ کہ مسلم دنیا کے روایتی لیڈر سعودی عرب کے امریکہ کے بہت قریب ہو جانے کے بعد، مسلمانوں کے درمیان اس کی قبولیت میں کمی آئی ہے۔ اس کے پیش نظر ترکی اس بات کا خواہش مند ہے کہ وہ اسلامی دنیا میں اپنا کھویا ہوا ممتاز مقام دوبارہ حاصل کرے۔ اسی لیے لیبیا میں فوجی اور سفارتی مداخلت اور ناگورنو-قرح باخ خطے پر آذربائیجان-آرمینیا کی جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد ترکی اب افغانستان میں جاری طاقت کے کھیل میں اپنا قدم آگے بڑھانا چاہتا ہے۔

لیکن اس حالیہ پیشرفت میں دلچسپ بات یہ ہے کہ ترکی نے ہنگری کے علاوہ پاکستان سے بھی فعال کردار اور تعاون کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

پچھلے ہفتے ہی ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے نیٹو کے سربراہی اجلاس میں امریکی صدر جو بائیڈن سے ملاقات کے بعد کہا تھا کہ میں نے (بائیڈن) کو پاکستان اور ہنگری کے ساتھ تعاون کے بارے میں اپنی رائے سے واقف کرایا۔ فی الوقت اس معاملے پر اتفاق رائے ہے۔ اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

پاکستان کو اپنے ساتھ رکھنے کی ترکی کی خواہش اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ طالبان اور دیگر جنگجوؤن کے درمیان پاکستان کے اثر و رسوخ کے پیش نظر افغانستان میں اس (پاکستان) کی مدد کے بغیر کسی بھی نظام یا طاقت کا ٹکنا ممکن نہیں ہے۔

پاکستان کے لیے بھی، افغانستان میں ترکی کی اہمیت بڑھنے سے کابل میں پاکستان کی پوزیشن مضبوط اور یقینی ہوگی۔

لیکن متعدد وجوہات کی بنا پر اس پیش رفت کے ہندوستان پر متعدد مضر اثرات مرتب ہوں گے۔

ایک یہ کہ بھارت کبھی ترکی کا مخالف نہیں رہا، لیکن اس کے ساتھ کبھی قریبی تعلقات بھی نہیں رہے۔ کابل میں پاکستان کی حمایت سے ترکی کی اہمیت میں اضافہ ہونے سے افغانستان میں بھارت کا اثر و رسوخ ختم ہو سکتا ہے۔

دوسری بات یہ کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ترکی کا موقف بھارت کے خلاف ہے۔ صدر اردگان نے 14 فروری 2020 کو پاکستان کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس خطاب کیا۔ کشمیری مسئلے پر ان کا موقف یہ تھا کہ ترکی مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے اٹل موقف کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا "آج، مسئلہ کشمیر ہمارے لیے اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ پاکستان کے لیے… ایمان والوں کے دلوں کے درمیان کوئی بھی فاصلہ دیوار نہیں کھڑی کر سکتا۔"

مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے علاوہ اسے 'امت' کی دعوت کے طور پر بھی سمجھا جاسکتا ہے۔

ان پیشرفتوں کی وجہ سے افغانستان میں بھارت کے قدم جمانے کی کوششیں مزید مشکل ہو جائیں گی۔

قطر کے انسداد دہشت گردی اور تنازعات کے حل کے لیے خصوصی مندوب مطلق بن ماجد القحطانی کے مطابق، ہندوستانی عہدے داروں نے حال ہی میں قطر میں طالبان کے نمائندوں سے خفیہ طور پر ملاقات کی ہے۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے جب قطر کے سرکاری حلقوں سے اس بات کی تصدیق ہوئی ہے۔ تاحال، بھارت کابل میں صرف افغان حکومت کو تسلیم کرتا ہے۔

لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ کابل میں ترکی اور پاکستان کا ایک مضبوط محور ہندوستان کے لئے ایک دھچکا ہوگا۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پاکستان اب افغانستان اور ہندوستان کے ساتھ دو محاذوں پر مشغول نہیں ہوگا۔ اس کے بجائے وہ اپنے وسائل کو بھارت سے متصل سرحد پر منتقل و مرکوز کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔

امریکہ اور ترکی کے مابین تعلقات میں بہتری کی علامت کے طور پر، کابل کے حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے کو ہینڈل کرنے کے معاملے پر بات چیت کرنے کے لیے دونوں ممالک کے اعلی حکام جمعرات (24 جون) کو ملاقات کر سکتے ہیں۔ امریکی افواج 11 ستمبر 2021 افغانستان سے مکمل طور پر نکل جائیں گی۔ ایسے میں

کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کی اسٹریٹجک اہمیت کے پیش نظر اس کی دیکھ ریکھ اور سیکورٹی موضوع بحث ہے۔

کابل ایئر پورٹ کو جو چیز کافی اہم بناتی ہے وہ یہ ہے کہ چہار جانب سرحدوں سے گھرا ہوئے افغانستان میں انسانوں اور سامانوں کی نقل و حمل کے لیے کابل ایئرپورٹ ہی سپلائی کا سب سے اہم راستہ ہے۔ آس پاس کے علاقوں سے کابل تک بذریعہ روڈ کا راستہ خطے کی ساخت کی وجہ سے انتہائی دشوار کن ہے، اسی وجہ سے طالبان کو تازہ حملوں میں افغان حکومت پر غلبہ حاصل ہو رہا ہے۔

ترکی کے تقریباً 500 فوجی پہلے سے ہی کابل ایئرپورٹ پر غیر جنگی ڈیوٹی پر تعینات ہیں۔ ترکی کے یہ فوجی 2001 میں افغانستان میں ناٹو افواج کے ساتھ غیر جنگی مشن کے تحت افغانستان میں داخل ہوئے تھے۔

اسی کے ساتھ یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ ترکی نے افغان حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کی میزبانی کی پیش کش بھی کی ہے، یہ دونوں باتیں دو الگ الگ اشارے کر رہی ہیں۔

ایک یہ کہ ترکی روسیوں سے ایس -400 دفاعی نظام کی خریداری کے ناٹو کے ساتھ بگڑتے تعلقات کے درمیان وہ اس کے ذریعہ نیٹو کے اہم اتحادی کی حیثیت سے اپنی پوزیشن مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ صدر بائیڈن بعض دیگر امور کے تعلق سے بھی ترکی کو تنقید کا نشانہ بتاتے رہے ہیں۔ اگر ترکی کابل ایئرپورٹ کی نگرانی کا کام سنبھال لیتا ہے تو موجودہ ترک حکومت اتحاد میں اپنی اہمیت کو ثابت کیے بنا نیٹو میں اپنی پوزیشن اچھی بنا لے گی۔


دوسری بات یہ کہ مسلم دنیا کے روایتی لیڈر سعودی عرب کے امریکہ کے بہت قریب ہو جانے کے بعد، مسلمانوں کے درمیان اس کی قبولیت میں کمی آئی ہے۔ اس کے پیش نظر ترکی اس بات کا خواہش مند ہے کہ وہ اسلامی دنیا میں اپنا کھویا ہوا ممتاز مقام دوبارہ حاصل کرے۔ اسی لیے لیبیا میں فوجی اور سفارتی مداخلت اور ناگورنو-قرح باخ خطے پر آذربائیجان-آرمینیا کی جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد ترکی اب افغانستان میں جاری طاقت کے کھیل میں اپنا قدم آگے بڑھانا چاہتا ہے۔

لیکن اس حالیہ پیشرفت میں دلچسپ بات یہ ہے کہ ترکی نے ہنگری کے علاوہ پاکستان سے بھی فعال کردار اور تعاون کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

پچھلے ہفتے ہی ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے نیٹو کے سربراہی اجلاس میں امریکی صدر جو بائیڈن سے ملاقات کے بعد کہا تھا کہ میں نے (بائیڈن) کو پاکستان اور ہنگری کے ساتھ تعاون کے بارے میں اپنی رائے سے واقف کرایا۔ فی الوقت اس معاملے پر اتفاق رائے ہے۔ اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

پاکستان کو اپنے ساتھ رکھنے کی ترکی کی خواہش اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ طالبان اور دیگر جنگجوؤن کے درمیان پاکستان کے اثر و رسوخ کے پیش نظر افغانستان میں اس (پاکستان) کی مدد کے بغیر کسی بھی نظام یا طاقت کا ٹکنا ممکن نہیں ہے۔

پاکستان کے لیے بھی، افغانستان میں ترکی کی اہمیت بڑھنے سے کابل میں پاکستان کی پوزیشن مضبوط اور یقینی ہوگی۔

لیکن متعدد وجوہات کی بنا پر اس پیش رفت کے ہندوستان پر متعدد مضر اثرات مرتب ہوں گے۔

ایک یہ کہ بھارت کبھی ترکی کا مخالف نہیں رہا، لیکن اس کے ساتھ کبھی قریبی تعلقات بھی نہیں رہے۔ کابل میں پاکستان کی حمایت سے ترکی کی اہمیت میں اضافہ ہونے سے افغانستان میں بھارت کا اثر و رسوخ ختم ہو سکتا ہے۔

دوسری بات یہ کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ترکی کا موقف بھارت کے خلاف ہے۔ صدر اردگان نے 14 فروری 2020 کو پاکستان کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس خطاب کیا۔ کشمیری مسئلے پر ان کا موقف یہ تھا کہ ترکی مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے اٹل موقف کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا "آج، مسئلہ کشمیر ہمارے لیے اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ پاکستان کے لیے… ایمان والوں کے دلوں کے درمیان کوئی بھی فاصلہ دیوار نہیں کھڑی کر سکتا۔"

مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے علاوہ اسے 'امت' کی دعوت کے طور پر بھی سمجھا جاسکتا ہے۔

ان پیشرفتوں کی وجہ سے افغانستان میں بھارت کے قدم جمانے کی کوششیں مزید مشکل ہو جائیں گی۔

قطر کے انسداد دہشت گردی اور تنازعات کے حل کے لیے خصوصی مندوب مطلق بن ماجد القحطانی کے مطابق، ہندوستانی عہدے داروں نے حال ہی میں قطر میں طالبان کے نمائندوں سے خفیہ طور پر ملاقات کی ہے۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے جب قطر کے سرکاری حلقوں سے اس بات کی تصدیق ہوئی ہے۔ تاحال، بھارت کابل میں صرف افغان حکومت کو تسلیم کرتا ہے۔

لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ کابل میں ترکی اور پاکستان کا ایک مضبوط محور ہندوستان کے لئے ایک دھچکا ہوگا۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پاکستان اب افغانستان اور ہندوستان کے ساتھ دو محاذوں پر مشغول نہیں ہوگا۔ اس کے بجائے وہ اپنے وسائل کو بھارت سے متصل سرحد پر منتقل و مرکوز کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔

Last Updated : Jun 23, 2021, 10:50 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.