لیبیائی فوج کی مشرقی کمان کے سربراہ نے ترک صدر رجب طیب اردگان کو وارننگ دی ہے کہ وہ ترک فوج کو لیبیا سے دور رکھیں ورنہ جوابی فوجی ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق یہ وارننگ طرابلس میں گورنمنٹ آف نیشنل اکارڈ کے ساتھ تنازع میں لیبین نیشنل آرمی کی سربراہی کرنے والے لیبیائی فوج کی مشرقی کمان کے سربراہ خلیفہ حفتر نے دی ہے۔
واضح رہے کہ رجب طیب اردگان نے جی این اے کے لیے لڑنے کی غرض سے شام سے ترکی کے حمایت یافتہ لوگ بھیجے ہیں جن کے پاس آرٹلری اور بھارتی ہتھیار ہیں۔
حفتر نے عیدالاضحیٰ کے موقع پر فوج سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر پر الزام لگایا تھا کہ وہ 'اپنے آباؤ اجداد کی میراث کی تلاش کے لیے لیبیا آنا چاہتے ہیں، لیکن ہم انہیں بتا دینا چاہتے ہیں کہ آپ کے آباؤ اجداد کی میراث کا جواب گولیوں سے دیا جائے گا۔ لیبیا میں کسی بھی ترک فورس سے کوئی رحم نہیں کیا جائے گا کیونکہ وہ رحم کے لائق نہیں ہیں'۔
اخبار کے مطابق اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ لیبیا کے لوگ ترکوں کی جانب سے کسی قبضے کو قبول نہیں کریں گے اور دوبارہ کبھی کالونی نہیں بنیں گے۔
خلیفہ حفتر کی رجب طیب اردگان کو دی جانے والی اس وارننگ کے بعد ترکی کے وزیر دفاع اور متحدہ عرب امارات کے وزیر برائے امور خارجہ کے درمیان لفظی جنگ چھڑ گئی ہے۔
خیال رہے کہ لیبیا میں مصر، متحدہ عرب امارات اور روس متحارب گروپ خلیفہ حفتر کی فورسز کے ساتھ ہیں۔ ترکی دوسرے محاذ کے ساتھ ہے۔
یاد رہے کہ لیبیا میں طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والے معمر قذافی کے خلاف 2011 میں نیٹو اتحاد کی حمایت سے کارروائی شروع کی گئی تھی اور انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا تھا لیکن ملک میں انتشار کی فضا میں مزید اضافہ ہوگیا تھا۔
لیبیا میں طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والے معمر قذافی کی حکومت کو 2011 میں شروع ہونے والی مہم 'عرب بہار' کے دوران ختم کر دیا گیا تھا۔
معمر قذافی کے خلاف مغربی ممالک نے کارروائیوں میں حصہ لیا تھا تاہم ان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد لیبیا میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا اور خانہ جنگی شروع ہوئی جہاں ایک طرف عسکریت پسند مضبوط ہوئے تو دوسری طرف جنرل خلیفہ حفتر نے اپنی ملیشیا بنائی اور ایک حصے پر اپنی حکومت قائم کرلی ہے۔
جنرل خلیفہ حفتر کی ملیشیا نے رواں برس اپریل میں طرابلس کا محاصرہ ک لیا تھا اور حکومت کے نظام کو درہم برہم کردیا تھا اور ان کو خطے کے اہم ممالک سعودی عرب، مصر اور متحدہ عرب امارات کا تعاون حاصل ہے۔