ترکی کی ایک خاتون وکیل نے منصفانہ مقدمے کے حق میں احتجاجی بھوک ہڑتال کے 238 ویں دن استنبول کے اسپتال میں دم توڑدیا۔ ان پر دہشت گرد تنظیم کا رکن ہونے کا الزام تھا۔
متوفی وکیل ایبروتیمٹک کی اس طرح کی موت کے بعد اندرون اور بیرون ملک ترکی کی سخت مذمت کی جارہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ موت جمعرات کو ہی ہو گئی تھی اور آخری سانس لیتے وقت متوفیہ کا وزن گھٹ کر صرف 30 کلو رہ گیا تھا۔ یورپی یونین نے کہا ہے کہ یہ موت ترکی کے نظام عدل کی سنگین کوتاہیوں کو اجاگر کرتی ہے۔
چشم دید گواہوں کے حوالے سے خبروں میں بتایا گیا ہے کہ ایبروتیمٹک کے انتقال کے اگلے روز پولیس نے استنبول کی فرانزک لیب کے باہر جمع متوفیہ کے دوستوں اور حامیوں کو زبردستی منتشر کرنے کی کوشش کی۔
وہ لوگ لاش حاصل کے لئے کوشش کررہے تھے۔ پولیس نے ان لوگوں کے خلاف مبینہ طور پر آنسو گولے آور گیس کا استعمال کیا اور لوگوں کو پیچھے دھکیل دیا تھا۔
ترک روزنامہ 'کموریوں' نے رپورٹ دی کہ 4 لوگوں کو حراست میں بھی لیا گیا ہے۔ تقریباً 300 لوگ استنبول کے شمالی کنارے پر واقع علوی کے پوجا گھر پہنچے جہاں آخری رسوم ادا کی گئی۔
برسلز میں یورپی یونین کے ترجمان پیٹر اسٹانو نے کہا کہ یہ واقعہ مظہر ہے کہ ترکی میں انسانی حقوق کی صورتحال کو مناسب طریقے سے حل کرنے کی فوری ضرورت ہے۔
ایبروتیمٹک پر جو وکلا کی تنظیم (سی ایچ ڈی) کے رکن تھیں، الزام تھا کہ ان کے ممنوعہ یساری تنظیم 'پیپلز لیبریشن پارٹی فرنٹ' (ڈی ایچ کے پی سی) سے قریبی تعلقات تھے۔
استنبول کی ایک عدالت نے سنہ 2019 میں 'دہشت گرد گروہ تشکیل دینے اور چلانے' اور 'دہشت گرد گروہ میں رکنیت' کے الزام میں ایبرو تیمٹک سمیت 18 وکلا کو متعدد سزائیں سنائیں تھیں۔
ابتدائی طور پر ستمبر سنہ 2018 میں حراست میں لے جانی والی ایبروتیمٹک کو 13 برس 6 ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی، جس کی وجہ سے وہ اور کچھ دیگر وکلا فروری میں بھوک ہڑتال شروع کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ متوفیہ کو استنبول کے مضافات میں واقع سلویری جیل بھیج دیا گیا تھا۔
ابیروتیموٹک کے ساتھ ان کی ساتھی وکیل ایاک انسل نے بھی بھوک ہڑتال جاری رکھی تھی۔ جولائی میں انہیں جیل سے اسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔