میانمار میں بڑے پیمانے پر جاری مظاہرے سنیچر کو دوسرے ہفتے میں داخل ہو گئے ہیں۔ تاحال نہ ہی مظاہرین اور نہ ہی فوجی حکومت پیچھے ہٹنے کے لیے تیار ہے۔ فوجی حکام مظاہرین روکنے اور ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ملک کے سب سے بڑے شہر ینگون میں مظاہرین ایک بار پھر ہلڈین چوراہے پر جمع ہوئے۔ ہلڈین چوراہا انتہائی اہمیت کا حامل ہے جو امریکہ اور چین کے سفارت خانوں کو جاتا ہے۔ مظاہرین نے پانچ یا زیادہ لوگوں کے اجتماع پر پابندی کے باوجود یہاں مارچ کیا۔
دوسرے بڑے شہر منڈالے میں بھی مظاہرے دوبارہ شروع ہوئے، وکلاء نے ایک بڑا دستہ تشکیل دیا ہے۔
فوج نے ملک کی رہنما آنگ سان سوچی اور ان کی حکومت کو بے دخل کردیا اور حال ہی میں منتخب قانون سازوں کو پارلیمنٹ کا نیا اجلاس منعقد کرنے سے روک دیا۔ سو چی اور اس کی حکومت اور پارٹی کے دیگر سینئر ممبران اس وقت نظر بند ہیں۔
سینئر جنرل من آنگ ھلاینگ کے مطابق انہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا کیونکہ سوچی کی حکومت گزشتہ سال کے انتخابات میں دھوکہ دہی کے الزامات کی صحیح طور پر تحقیقات کرنے میں ناکام رہی تھی، جس میں نیشنل لیگ برائے ڈیموکریسی پارٹی نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی۔ الیکشن کمیشن کے مطابق فوج کے دعوؤں کی حمایت میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔
ہفتہ کے روز کا احتجاج ملک کے آزادی رہنما اور سوچی کے والد جنرل آنگ سان کی سالگرہ کے موقع پر ہوا۔ اس کے نام اور تصویر کے بینر اور پلے کارڈ احتجاجیوں نے ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے تھے۔
حکام نے سیاستدانوں اور کارکنوں کی گرفتاریوں میں تیزی لائی ہے اور یانگون سے باہر کے علاقوں میں احتجاج کو توڑنے اور مظاہرین کو روکنے کی کوشش میں زیادہ جارحانہ رویہ اختیار کیا ہے۔
سیاسی قیدیوں کی آزادی اور امداد کے حق میں کھڑی تنظیم کے مطابق بغاوت کے بعد سے کم از کم 326 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جن میں سے 303 افراد اب بھی نظر بند ہیں۔
مزیر پڑھیں؛ حکومت کی تنبیہ کے بعد ٹویٹر کے 90 فیصد اکاؤنٹ پر پابندی
گزشتہ تین راتوں اور سخت ترین کرفیو کے دوران بہت سے چھاپوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں جس میں حفاظتی اہلکاروں نے لوگوں کو گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی۔ متعدد معاملات کے دوران پڑوسی اور دیگر افراد بھاری تعداد میں جمع ہوئے جس کے سبب سیکیورٹی فورسز کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ اس طرح کے چھاپوں کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر پوسٹ کی گئی ہیں۔
فوج نے میانمار میں سنہ 1962 کی بغاوت کے بعد پانچ دہائیوں تک براہ راست حکمرانی کی اور 1988 کی تحریک اور 2007 میں بدھسٹ راہبوں کی سربراہی والی تحریک کو ختم کرنے کے لئے مہلک طاقت کا استعمال کیا۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی اعلی تنظیم نے جمعہ کے روز ایک متفقہ قرارداد منظور کی جس میں فوج سے فوری طور پر سوچی اور دیگر رہنماؤں کو رہا کرنے کی اپیل کی گئی۔