اگست کے وسط میں طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد سے ان کے خلاف داعش سے وابستہ دہشت گردوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ دہشت گردانہ حملوں نے دونوں گروہوں کے درمیان وسیع تنازعہ کا امکان پیدا کیا ہے۔
طالبان کے وزیر اطلاعات و ثقافت ذبیح اللہ مجاہد نے طلوع نیوز کے حوالے سے کہا کہ افغانستان میں داعش کی طرف سے لاحق خطرے کو مسترد کرتے ہوئے طالبان نے کہا کہ داعش بہت جلد ہی ختم ہوجائے گا۔ہم داعش کو خطرہ نہیں کہتے ہیں لیکن ہم اسے سر درد ضرور کہینگے۔
طالبان کے ترجمان نے مزید کہا کہ یہ گروپ کچھ جگہوں پر سر درد پیدا کرتا ہے لیکن ہر واقعے میں اسے فوری طور پر نکال دیا جاتا ہے۔ ان کا پیچھا کیا گیا اور ان کی پناہ گاہیں مل گئیں، ہم انھیں بہت جلد ختم کر دینگے۔
یہ کاروائی اس وقت سامنے آئی ہے جب طالبان نے رواں ہفتے کے شروع میں مبینہ طور پر کابل کے شمالی مضافاتی علاقے میں آپریشن کرکے داعش خراسان برانچ کے تین عسکریت پسند کو ہلاک کردیا گیا تھا۔
مقامی خبروں میں بتایا گیا ہے کہ طالبان آئی ایس آئی ایس خراسان کے ٹھکانوں کا سراغ لگانے کے لیے آپریشن کر رہے ہیں۔
یہ کارروائیاں اس وقت کی گئیں جب ایک خودکش بمبار نے کابل میں عید گاہ کی مسجد میں دھماکہ کیا گیا جہاں طالبان حکام اور شہری ذبیح اللہ مجاہد کی مرحوم والدہ کی تعزیتی نششت میں جمع ہوئے تھے۔ اطلاعات کے مطابق دھماکے میں دس سے زائد افراد ہلاک اور بیس سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
آج شمالی صوبے قندوز کے ایک شیعہ برادری کی سید آباد مسجد میں اس وقت خود کش دھماکے کو انجام دیا گیا جب مقامی باشندے نماز جمعہ کے لیے مسجد میں جمع ہوئے تھے۔ دھماکے میں 50 سے زائد افراد ہلاک اور 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں، ابھی تک کسی گروپ نے دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
واضح رہے کہ پچھلے مہینے امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل مارک ملی نے کہا تھا کہ قوی امکان ہے کہ افغانستان میں القاعدہ یا داعش اگلے چھ سے 36 ماہ میں دوبارہ تشکیل پا سکتی ہے۔
امریکی پارلیمنٹ میں ہاؤس آرمڈ سروسز کمیٹی کی سماعت میں ملی نے کہا تھا کہ اس وقت افغانستان سے دہشت گردی کا خطرہ 9/11 کے مقابلے میں چھوٹا ہے، لیکن یہ کہ القاعدہ یا داعش کی تشکیل نو کے لیے حالات سازگار ہو سکتے ہیں