طالبان نے عالمی برادری کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر دنیا افغانستان سے کوئی خطرہ نہیں لینا چاہتی ہے تو اس تنظیم کو تسلیم کرنا چاہیے۔
ذرائع کے مطابق ہفتے کے روز ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ انہیں ایک ذمہ دار فریق کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے۔
اس تنظیم کو افغانستان پر قابض ہوئے دو ماہ گزر چکے ہیں لیکن پاکستان اور چین سمیت روس کو چھوڑ کر کسی دوسرے ملک نے طالبان کے ساتھ روابط بڑھانے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔
باقی عالمی برادری ملک میں حقوق کی صورتحال کا مشاہدہ کر رہی ہے اور ملک میں انسانی بحران کو کم کرنے پر توجہ مرکوز کر رہی ہے۔
طالبان کے ترجمان کا ایک بیان جو انتباہ کے طور پر دیکھا جارہا ہے جس میں ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ طالبان دیگر ممالک کو خطرات سے بچنے کی کوئی ذمہ داری اس وقت تک نہیں لیں گے جب تک کہ انہیں عالمی برادری تسلیم نہیں کر لیتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ طالبان کو تسلیم کرنا دوطرفہ ضرورت ہے۔
مجاہد نے کہا کہ "ہم نے امریکہ سے اس لیے جنگ کی کہ وہ ہمیں ماضی میں تسلیم نہیں کرتے تھے۔ اگر طالبان کو تسلیم نہیں کیا گیا تو اس سے افغانستان، خطے اور دنیا میں مسائل ہی بڑھیں گے۔"
انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ طالبان نے اپنے تسلیم کیے جانے کی تمام پیشگی شرائط پوری کر لی ہے اور دنیا کو انہیں کسی نہ کسی طریقے سے تسلیم کرنا چاہیے۔
- عمران خان کا عالمی برادری سے مطالبہ، طالبان حکومت کی حمایت کریں
- عالمی برادری افغانستان کو الگ تھلگ کرنے کی غلطی نہ دہرائے: پاکستانی وزیر خارجہ
- ایران میں افغانستان کے مستقبل پر پڑوسی ممالک کی یک روزہ کانفرنس
افغانستان کے نائب وزیرِ اطلاعات ذبیح اللّٰہ مجاہد کا یہ بھی کہنا ہے کہ افغانستان کسی بھی ملک کو فوجی اڈے بنانے کے لیے جگہ نہیں دے گا۔
مجاہد نے تمام ممالک سے کہا کہ وہ افغانستان میں اپنے سفارتی مشنز کو فعال کریں۔
امارت اسلامیہ کو تسلیم کرنے پر سوالات کے درمیان طالبان کے سفارت کاروں نے پاکستان میں افغانستان کے مشنز میں کام کرنا شروع کر دیا ہے۔
دریں اثنا، یورپی یونین افغانستان میں اپنے سفارتی مشن کو مہینوں میں دوبارہ کھولنے کی کوشش کر رہی ہے کیونکہ یہ بلاک نئی طالبان حکومت کے ساتھ اپنی مصروفیات کو بڑھانا چاہتا ہے۔
برطانیہ سے شائع ہونے والے اخبار فنانشل ٹائمز (FT) نے رپورٹ کیا کہ 27 رکنی بلاک دارالحکومت کابل واپس آئے گا کیونکہ برسلز امدادی کوششوں اور کچھ افغانوں کے مسلسل انخلاء کو مربوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔