طالبان نے ملک میں غیر ملکی کرنسی کے استعمال پر مکمل پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا ہے اور حکم کی خلاف ورزی پر کارروائی کا انتباہ دیا ہے۔ یہ ایک ایسا اقدام ہے جو یقینی طور پر افغانستان کی معیشت میں مزید خلل ڈالنے کا باعث بن سکتا ہے جو پہلے ہی تباہی کے دہانے پر ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں اعلان کیا کہ امارت اسلامیہ (طالبان) تمام شہریوں، دکانداروں، تاجروں اور عام لوگوں کو ہدایت کرتی ہے کہ وہ تمام لین دین افغانی کرنسی میں کریں اور غیر ملکی کرنسی کے استعمال سے سختی سے پرہیز کریں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’’جو بھی اس حکم کی خلاف ورزی کرے گا اسے قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔''
انہوں نے کہا کہ معاشی صورتحال اور قومی مفاد کے لیے ضروری ہے کہ تمام افغان شہری ملک میں لین دین کے لیے افغانی کرنسی کا استعمال کریں۔
ذرائع کے مطابق افغانستان کی منڈیوں میں امریکی ڈالرز وسیع پیمانے پر استعمال کیا جارہا ہے اور سرحدی علاقے تجارتی مقاصد کے لیے پاکستان جیسے پڑوسی ممالک کی کرنسی کا استعمال کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
- افغانستان سے لاحق خطرات سے بچنے کیلئے طالبان کو تسلیم کرنا ہوگا: طالبان ترجمان
- عالمی برادری افغانستان کو الگ تھلگ کرنے کی غلطی نہ دہرائے: پاکستانی وزیر خارجہ
- عمران خان کا عالمی برادری سے مطالبہ، طالبان حکومت کی حمایت کریں
قابل ذکر بات یہ ہے کہ 15 اگست کو کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد امریکہ، ورلڈ بینک اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے 9.5 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ تک افغانستان کی رسائی روک دی گئی ہے۔
لاکھوں افغان اندرونی طور پر بے گھر ہو چکے ہیں، اور ہزاروں لوگ بڑھتے ہوئے انسانی بحران کو دیکھتے ہوئے ملک چھوڑ چکے ہیں۔
ملک ایک سنگین معاشی صورتحال میں ہے جس میں کوئی بین الاقوامی تعاون اور رابطہ نہیں ہے جس کے نتیجے میں عام لوگوں کے لیے انتہائی مشکل صورتحال ہے۔