طالبان ثقافتی کمیشن کے رکن انعام اللہ سمنگانی منگل کے روز افغان سرکاری ٹی وی پر یہ تبصرہ کیا ہے (جو کہ اب طالبان کے قبضے میں ہے) کہ طالبان نے افغانستان میں عام معافی کا اعلان کیا ہے اور خواتین پر زور دیا کہ وہ بھی حکومت میں شامل ہوں۔
افغانستان کے لیے عسکریت پسندوں کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے سمنگانی نے کہا کہ امارت اسلامیہ نہیں چاہتی کہ خواتین مظلوم ہوں۔ انہیں شریعت کے مطابق حکومتی ڈھانچے میں شامل ہونا چاہیے۔
سمنگانی نے کہا حکومت کا ڈھانچہ مکمل طور پر واضح نہیں ہے لیکن ہمارے تجربے کی بنیاد پر اس میں مکمل اسلامی قیادت ہونی چاہیے اور تمام فریقوں کو اس میں شامل ہونا چاہیے۔
سمنگانی نے دیگر تفصیلات کے بارے میں کچھ نہیں کہا تاہم اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ پہلے ہی اسلامی قانون کے قوانین کو جانتے تھے جن کی طالبان توقع کرتے تھے کہ وہ ان پر عمل کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے لوگ مسلمان ہیں اور ہم انہیں یہاں اسلام پر مجبور کرنے کے لیے نہیں آئے ہیں۔
مزید پڑھیں:
- طالبان کی سکھوں اور ہندوؤں کو سکیورٹی کی یقین دہانی، ملک نہ چھوڑنے کی اپیل
- طالبان کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں: چین
- Taliban Leader: طالبان کا اہم رہنما کون؟
- طالبان گر بنیادی حقوق کا احترام کریے تو امریکہ انہیں تسلیم کرلے گا: انٹونی بلنکن
اگرچہ کابل میں زیادتیوں یا لڑائی جھگڑوں کی کوئی بڑی اطلاعات موصول نہیں ہوئی ہے اور بہت سے کابل کے باشندے گھروں میں ہی رہ رہے ہیں کیونکہ طالبان کے قبضے کے بعد جیل کو خالی کرا دیا گیا اور اسلحہ لوٹنے کے بعد سے خوفزدہ ہیں۔
پرانی نسلوں کو ان کے اسلامی نظریات یاد ہیں، جن میں 11 ستمبر 2001 کے دہشت گرد حملوں کے بعد امریکی قیادت میں حملے سے پہلے ان کے دور میں سنگسار اور سرعام پھانسی شامل تھی۔
واضح رہے کہ طالبان کے افغانستان پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے بعد طالبان اب نئی حکومت کو تشکیل دینے میں مصروف ہیں۔