چین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ تائیوان کو اقوامِ متحدہ میں شمولیت اختیار کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ چین کا یہ بیان امریکہ کی جانب سے جمہوری جزیرے کی عالمی ادارے میں زیادہ سے زیادہ شمولیت کے مطالبے سے بڑھنے والی کشیدگی کے بعد سامنے آیا۔
ذرائع کے مطابق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بیجنگ کو نشست دینے اور تائی پے کو باہر نکالنے کے 50 سال برس مکمل ہونے پر ایک بیان میں امریکی سیکریٹری اسٹیٹ انٹونی بلنکن نے کہا کہ انہیں افسوس ہے کہ تائیوان کو عالمی سطح پر تیزی سے خارج کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسے میں جب عالمی برادری کو بے مثال اور متعدد پیچیدہ عالمی مسائل کا سامنا ہے، یہ تمام اسٹیٹ ہولڈرز کے لیے اہم ہے کہ ان مسائل کے حل میں مدد کریں جس میں تائیوان میں بسنے والے 2 کروڑ 40 لاکھ افراد بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے نظام میں تائیوان کی بامعنی شرکت کوئی سیاسی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک عملی مسئلہ ہے۔
امریکی سیکریٹری اسٹیٹ نے کہا کہ اسی لیے ہم اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ اقوام متحدہ کے نظام اور بین الاقوامی برادری میں تائیوان کی مضبوط، بامعنی شرکت کی حمایت میں ہمارا ساتھ دیں۔
واضح رہے کہ چین تائیوان کو ایک ایسا صوبہ سمجھتا ہے جس کے دوبارہ اتحاد کا انتظار ہے اور اگر ضرورت پڑی تو اس کے لیے طاقت کا استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔
چنانچہ ایٹونی بلنکن کے بیان کے ردِ عمل میں چین کے جاری کردہ بیانات میں کہا گیا کہ تائیوان حکومت کی عالمی سیاسی اسٹیج پر کوئی جگہ نہیں ہے۔ بیجنگ میں دفتر برائے امورِ تائیوان کے ترجمان نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تائیوان کا اقوامِ متحدہ میں شمولیت اختیار کرنے کا کوئی حق نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ ایک بین الاقوامی حکومتی تنظیم ہے جو خودمختار ریاستوں پر مشتمل ہے جبکہ تائیوان چین کا ایک حصہ ہے۔
امریکہ طویل عرصے سے تائیوان کو اقوام متحدہ کی سرگرمیوں میں شامل کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ دوسری جانب تائیوان کے وزیر خارجہ جوزف نے امریکہ کی حمایت پر اس کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ہم اسے بہت سراہتے ہیں۔
پراگ کے سرکاری دورے کے موقع پر جوزف نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم عالمی تنظیم میں اپنے حقوق کے لیے لڑائی لڑتے رہیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ چین کی جانب سے آبنائے تائیوان میں مسلسل فوجی دستے بھیجنے سے صورتحال مزید خراب ہورہی ہے، ہم اپنے دفاع کے لیے پرعزم ہیں۔
(یو این آئی)