شمالی شام میں گرافٹی فنکاروں نے جارج فلائیڈ کی یاد کو ایک تباہ شدہ عمارت کی دیوار پر پینٹ کر کے فلائیڈ کے دردناک موت کا احساس دلایا۔
عزیز الاسمار نامی فنکار نے بتایا کہ 'امریکہ میں سیاہ فام لوگوں کے خلاف نسل پرستی کے واقعات میں اضافہ دیکھ کر ہم شامی صوبے ادلب کے شہر بنش میں نکل پڑے اور نسل پرستی کے واقعات کی ان تمام شکلوں کی مذمت کرنے والی ایک پینٹنگ بنائی۔ خواہ وہ نسل کی بنیاد پر ہو یا زبان اور رنگ کی بنیاد پر'۔
امریکی شہری جارج فلائیڈ کا 25 مئی کی شب امریکہ میں انتقال ہوگیا تھا، جب ایک پولیس اہلکار نے امریکی ریاست مینی سوٹا کے مینی پولیس شہر میں فلائیڈ کے گلے پر 8 منٹ 46 سکنڈز تک اپنے گھٹنوں کو رکھ کر گلا گھونٹ دیا تھا۔
گلا گھونٹے جانے کے وقت جارج فلائیڈ کے دونوں ہاتھوں میں ہتھ کڑی تھی اور ان کے منہ سے 'میں سانس نہیں لے سکتا' کی آواز بھی سنی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس پینٹ میں انگریزی میں 'میں سانس نہیں لے سکتا' بھی لکھا گیا ہے۔
اس حادثے کے بعد امریکہ کے متعدد ریاستوں میں مسلسل مظاہرے ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک مثلا برطانیہ اور ایران وغیرہ میں بھی مظاہرے ہوئے ہیں۔
حالانکہ ملزم پولیس اہلکار ڈیریک چاوون کو گرفتار کر کے ان کے خلاف قتل کا مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے، تاہم امریکہ میں مظاہروں کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔