سعودی عرب نے ایران کو ٹرمپ کے امن منصوبے پر بات چیت سے متعلق 'آرگنائزیشن آف اسلامک کو آپریشن' اجلاس میں شرکت سے روک دیا۔
ایرانی وزیر خارجہ کے ترجمان سید عباس موسوی نے بتایا کہ سعودی عرب نے نائب ایرانی وزیر خارجہ حسین جبیری کی قیادت میں جانے والے وفد کے لیے ویزا دینے سے انکار کر دیا۔
در اصل ایران اور سعودی عرب کے درمیان کئی عشروں سے کشیدگی کا ماحول ہے۔ اور دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف پراکسی وار میں ملوث ہیں۔
واضح رہے کہ مسلم اکثریت والے 57 ممالک پر مشتمل ایک اہم اتحاد 'او آئی سی' نے پیر کو سعودی عرب میں ایک میٹنگ بلائی ہے۔ اس میٹنگ میں گذشتہ ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ذریعہ تیار کیے گئے اسرائیل اور فلسطین کے امن معاہدے سے متعلق بات چیت کی جائے گی۔
جب سے امن منصوبہ سامنے آیا ہے، مسلسل فلسطینی مسلمان اس معاہدے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس یک طرفہ معاہدے کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔
غور طلب ہے کہ یہ کوئی پہلا ایسا موقع نہیں ہے، جب امریکہ نے اسرائیل اور فلسطین کے مابین امن معاہدے کی کوشش نہ کی ہو۔ اس سے قبل بھی فلسطین اور اسرائیل معاملے کو حل کرنے کی سمت میں متعدد کوششیں کی جا چکی ہیں۔
سنہ 1993 میں اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابین اور فلسطینی رہنما یاسر عرفات کے درمیان امریکی صدر بل کلنٹن نے معاہدہ کرایا تھا، جسے 'اوسلو اکارڈ' کے نام سے جانا جاتا ہے۔ حالانکہ سنہ 2000 میں یہ معاہدہ ناکام ہو گیا تھا۔