جرمنی کے دارالحکومت برلن میں ہونے والے یک روزہ اجلاس میں اقوام متحدہ، یورپی یونین، افریقن یونین اور عرب لیگ کے علاوہ دیگر 12 ممالک کے اعلی رہنماوں نے شرکت کی، جس میں لیبیا کے مستقبل پر گفتگو کی گئی۔
لیبیا میں جاری خانہ جنگی اور لیبیا کے دارالحکومت طرابلس پر قبضے کے لیے جاری جنگ کے علاوہ تیل کی بندش کے خاتمے کے لیے تبادلہ خیال کیا گیا۔
خیال رہے کہ گذشتہ برس اپریل سے جاری اس خانہ جنگی کے دوران ایک لاکھ چالیس ہزار سے زائد افراد بے گھر ہوچکے ہیں اور ملک کی خام تیل کی پیداوار میں بڑے پیمانے پر کمی ہوئی ہے۔
اجلاس میں امریکہ، روس، ترکی، جرمنی، فرانس جیسے طاقتور ممالک کے رہنماون نے شرکت کی۔
اجلاس کی میزبانی کر رہے جرمنی اور اقوام متحدہ نے امید ظاہر کی ہے، کہ وہ متحارب فریقوں کو جنگ بندی کے لیے آمادہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
روسی صدر ولادیمیر پوتن اور ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے لیبیا میں غیر ملکی فوجی مداخلت کو روکنے، جنگ بندی کو مستحکم کرنے اور لیبیا میں سیاسی عمل کو دوبارہ شروع کرنے میں تعاون دینے کی بات کہی۔
روسی صدر پتن نے کہا کہ وہ تنازعات کے حل کے لیے خلوص دل سے جدوجہد کریں گے۔
واضح رہے کہ مغربی طاقتوں کی جانب سے لیبیا کی قومی فوج کے کمانڈر خلیفہ حفتر پر طرابلس میں جاری جنگ بندی کو برقرار رکھنے کے لیے دباؤ ڈالے جا رہے ہیں۔ لیبی قومی فوج اور طرابلس میں وزیراعظم فایزالسراج کے زیر قیادت قومی اتحاد کی حکومت کے درمیان گذشتہ ایک ہفتے سے جنگ بندی جاری ہے۔
ان مذاکرات سے ایک روز قبل ہی لیبیا کی اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ قومی اتحاد کی حکومت نے روس اور ترکی کی اپیل پر جنگ بندی سے اتفاق کیا تھا۔ اس کے اس فیصلہ سے قبل خلیفہ حفتر نے مشروط طور پر جنگی کارروائیاں روکنے کا اعلان کیا تھا۔