ETV Bharat / international

Afghan Universities Reopen: طالبات کی قلیل تعداد کے ساتھ افغانستانی یونیورسٹیز میں تعلیمی سلسلہ بحال

author img

By

Published : Feb 2, 2022, 10:55 PM IST

ننگرہار یونیورسٹی کے سربراہ خلیل احمد بحسودوال نے بتایا کہ یونیورسٹی میں طلبہ و طالبات علیحدہ علیحدہ کلاسز میں شرکت کریں گے۔ بہت سے صوبوں میں یہ طریقہ کار پہلے سے موجود ہے۔ حکام نے بتایا کہ لغمان، ننگرہار، قندھار، نمروز، فراح اور ہلمند جیسے گرم موسم والے صوبوں میں جامعات آج کھل گئے ہیں، جب کہ کابل سمیت دیگر سرد علاقوں میں یونیورسٹیاں 26 فروری سے دوبارہ کھل جائیں گی۔ Resume Education in Afghan Universities

resume education in afghan universities
طالبات کی قلیل تعداد کے ساتھ افغانستانی جامعات میں تعلیمی سلسلہ بحال

اگست میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے اور عالمی برادری کے خواتین کے سلسلے میں طالبان پر زبردست نقطہ چینی کے بعد افغانستان میں پہلی بار آج کچھ سرکاری جامعات کھل گئی ہیں جہاں خواتین کی قلیل تعداد کلاسز میں شرکت کر رہی ہے اور طلبہ اور طالبات کے لیے علیحدہ کلاسز کا انتظام کیا جارہا ہے۔ Resume Education in Afghan Universities

افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے لڑکیوں کے زیادہ تر سیکنڈری اسکولز اور تمام سرکاری جامعات کو بند کردیا گیا تھا۔ اس سے یہ خوف پیدا ہوا کہ 1996 سے 2001 کے دوران طالبان کے پہلے دور حکومت کی طرح اس بار دوبارہ خواتین کو تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا جائے گا۔

ڈان میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق ننگرہار یونیورسٹی میں قانون اور سیاسیات کی طالبہ نے کہا کہ ’یہ ہمارے لیے خوشی کا لمحہ ہے کہ ہماری کلاسز شروع ہوگئی ہیں، لیکن ہمیں اب بھی خدشہ ہے کہ طالبان ہمیں روک سکتے ہیں‘۔ ننگرہار یونیورسٹی کے سربراہ خلیل احمد بحسودوال نے غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ یونیورسٹی میں طلبہ و طالبات علیحدہ علیحدہ کلاسز میں شرکت کریں گے، بہت سے صوبوں میں یہ طریقہ کار پہلے سے موجود ہے۔

حکام نے بتایا کہ لغمان، ننگرہار، قندھار، نمروز، فراح اور ہلمند جیسے گرم موسم والے صوبوں میں جامعات آج کھل گئی ہیں، جبکہ کابل سمیت دیگر سرد علاقوں میں جامعات 26 فروری سے دوبارہ کھل جائیں گی۔

یونورسٹی کے ایک ملازم نے بتایا کہ طلبہ و طالبات کی کلاسیں علیحدہ علیحدہ ہوں گی، خواتین کو صبح اور مردوں کو دوپہر میں پڑھایا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: Taliban on Female Education: امارت اسلامیہ افغانستان خواتین کی تعلیم کے خلاف نہیں ہے

طالبان انتظامیہ نے باضابطہ طور پر خواتین یونیورسٹی کی طالبات کے لیے اپنے منصوبے کا اعلان نہیں کیا، لیکن تعلیمی حکام نے بتایا کہ خواتین کو اس شرط پر کلاسز میں شرکت کی اجازت دی گئی کہ انہیں مرد طلبہ سے علیحدہ کلاسز میں پڑھایا جائے۔

اقوام متحدہ نے افغانستان کی سرکاری جامعات میں طالبات کی واپسی کی تعریف کی ہے جو کہ خواتین کی تعلیم کے سلسلے کی باضابطہ بحالی کی جانب اشارہ کرتا ہے۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن کی جانب سے ایک ٹوئٹ میں کہا گیا کہ اقوام متحدہ اس اعلان کا خیر مقدم کرتا ہے کہ 2 فروری سے سرکاری جامعات تمام طلبہ و طالبات کے لیے دوبارہ کھلنا شروع ہوجائیں گی، ہر نوجوان کو تعلیم تک یکساں رسائی حاصل ہونے کے لیے یہ انتہائی اہم ہے۔ خصوصی نمائندہ ڈیبرا لیونز نے بھی اپنی ٹوئٹ میں جامعات میں طلبہ و طالبات کی واپسی کی حمایت پر زور دیا۔

افغانستان کی کچھ جامعات میں تعلیمی سلسلہ Resume Education in Afghan Universities طالبان کے ایک وفد کی ناروے میں مغربی حکام سے بات چیت کے ایک ہفتے کے بعد بحال ہوا ہے جہاں اربوں ڈالر کے ضبط شدہ اثاثوں اور منجمد غیر ملکی امداد کی بحالی کے لیے ان پر خواتین کے حقوق کو بہتر بنانے کے لیے دباؤ ڈالا گیا تھا۔امداد کی بندش نے افغانستان میں ایک انسانی بحران کو جنم دیا ہے جو پہلے ہی کئی دہائیوں طویل جنگ سے تباہ حال ہو چکا ہے۔

ابھی تک کسی بھی ملک نے طالبان کی نئی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے جبکہ وہ اپنی گزشتہ سخت گیر حکومت کے برعکس اس بار معتدل طرز حکمرانی کا وعدہ کرچکے ہیں۔طالبان حکومت نے خواتین پر کئی پابندیاں عائد کی ہیں جس کی وجہ سے ان پر کئی سرکاری ملازمتوں کے دروازے بھی بند کردیے گئے ہیں۔طالبان نے کہا ہے کہ مارچ کے آخر تک لڑکیوں کے تمام اسکول دوبارہ کھل جائیں گے۔

یو این آئی

اگست میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے اور عالمی برادری کے خواتین کے سلسلے میں طالبان پر زبردست نقطہ چینی کے بعد افغانستان میں پہلی بار آج کچھ سرکاری جامعات کھل گئی ہیں جہاں خواتین کی قلیل تعداد کلاسز میں شرکت کر رہی ہے اور طلبہ اور طالبات کے لیے علیحدہ کلاسز کا انتظام کیا جارہا ہے۔ Resume Education in Afghan Universities

افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے لڑکیوں کے زیادہ تر سیکنڈری اسکولز اور تمام سرکاری جامعات کو بند کردیا گیا تھا۔ اس سے یہ خوف پیدا ہوا کہ 1996 سے 2001 کے دوران طالبان کے پہلے دور حکومت کی طرح اس بار دوبارہ خواتین کو تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا جائے گا۔

ڈان میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق ننگرہار یونیورسٹی میں قانون اور سیاسیات کی طالبہ نے کہا کہ ’یہ ہمارے لیے خوشی کا لمحہ ہے کہ ہماری کلاسز شروع ہوگئی ہیں، لیکن ہمیں اب بھی خدشہ ہے کہ طالبان ہمیں روک سکتے ہیں‘۔ ننگرہار یونیورسٹی کے سربراہ خلیل احمد بحسودوال نے غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ یونیورسٹی میں طلبہ و طالبات علیحدہ علیحدہ کلاسز میں شرکت کریں گے، بہت سے صوبوں میں یہ طریقہ کار پہلے سے موجود ہے۔

حکام نے بتایا کہ لغمان، ننگرہار، قندھار، نمروز، فراح اور ہلمند جیسے گرم موسم والے صوبوں میں جامعات آج کھل گئی ہیں، جبکہ کابل سمیت دیگر سرد علاقوں میں جامعات 26 فروری سے دوبارہ کھل جائیں گی۔

یونورسٹی کے ایک ملازم نے بتایا کہ طلبہ و طالبات کی کلاسیں علیحدہ علیحدہ ہوں گی، خواتین کو صبح اور مردوں کو دوپہر میں پڑھایا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: Taliban on Female Education: امارت اسلامیہ افغانستان خواتین کی تعلیم کے خلاف نہیں ہے

طالبان انتظامیہ نے باضابطہ طور پر خواتین یونیورسٹی کی طالبات کے لیے اپنے منصوبے کا اعلان نہیں کیا، لیکن تعلیمی حکام نے بتایا کہ خواتین کو اس شرط پر کلاسز میں شرکت کی اجازت دی گئی کہ انہیں مرد طلبہ سے علیحدہ کلاسز میں پڑھایا جائے۔

اقوام متحدہ نے افغانستان کی سرکاری جامعات میں طالبات کی واپسی کی تعریف کی ہے جو کہ خواتین کی تعلیم کے سلسلے کی باضابطہ بحالی کی جانب اشارہ کرتا ہے۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن کی جانب سے ایک ٹوئٹ میں کہا گیا کہ اقوام متحدہ اس اعلان کا خیر مقدم کرتا ہے کہ 2 فروری سے سرکاری جامعات تمام طلبہ و طالبات کے لیے دوبارہ کھلنا شروع ہوجائیں گی، ہر نوجوان کو تعلیم تک یکساں رسائی حاصل ہونے کے لیے یہ انتہائی اہم ہے۔ خصوصی نمائندہ ڈیبرا لیونز نے بھی اپنی ٹوئٹ میں جامعات میں طلبہ و طالبات کی واپسی کی حمایت پر زور دیا۔

افغانستان کی کچھ جامعات میں تعلیمی سلسلہ Resume Education in Afghan Universities طالبان کے ایک وفد کی ناروے میں مغربی حکام سے بات چیت کے ایک ہفتے کے بعد بحال ہوا ہے جہاں اربوں ڈالر کے ضبط شدہ اثاثوں اور منجمد غیر ملکی امداد کی بحالی کے لیے ان پر خواتین کے حقوق کو بہتر بنانے کے لیے دباؤ ڈالا گیا تھا۔امداد کی بندش نے افغانستان میں ایک انسانی بحران کو جنم دیا ہے جو پہلے ہی کئی دہائیوں طویل جنگ سے تباہ حال ہو چکا ہے۔

ابھی تک کسی بھی ملک نے طالبان کی نئی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے جبکہ وہ اپنی گزشتہ سخت گیر حکومت کے برعکس اس بار معتدل طرز حکمرانی کا وعدہ کرچکے ہیں۔طالبان حکومت نے خواتین پر کئی پابندیاں عائد کی ہیں جس کی وجہ سے ان پر کئی سرکاری ملازمتوں کے دروازے بھی بند کردیے گئے ہیں۔طالبان نے کہا ہے کہ مارچ کے آخر تک لڑکیوں کے تمام اسکول دوبارہ کھل جائیں گے۔

یو این آئی

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.