ETV Bharat / international

بھارت کے بغیر آر سی ای پی کمزور: پیٹر ورگیز

آسٹریلیا کے سابق سفارت کار پیٹر ورگیز کا کہنا ہے کہ خطے کے مفادات کے ساتھ ساتھ بھارت کے اپنے معاشی مفادات کے لیے اسے آر سی ای پی پر دستخط کرنا چاہیے۔

author img

By

Published : Nov 12, 2019, 1:17 PM IST

بھارت کے بغیر آر سی ای پی کمزور: پیٹر ورگیز

بھارت میں آسٹریلیا کے لیے سابق ہائی کمشنر اور سابق سکریٹری ڈی ایف اے ٹی (محکمہ برائے امور خارجہ اور تجارت) پیٹر ورگیز نے آسٹریلیائی حکومت کے کمیشن کردہ 'انڈین اکانومی اسٹریٹجی پیپر' کو منظور کیا جو ایک برس قبل منظرعام پر آیا تھا۔

انڈین اکانومی اسٹریٹجی پیپر پر تبادلہ خیال کے لئے نئی دہلی میں سی آئی آئی کے زیرانتظام منعقدہ سیمینار میں ورگیز نے امید ظاہر کی کہ بھارت مستقبل میں آر سی ای پی میں شامل ہوگا۔

بھارت کے بغیر آر سی ای پی کمزور: پیٹر ورگیز

ورگیز نے زور دے کر کہا کہ 'اگر آپ اس وقت عالمی معاشی کے نقطہ نظر کو دیکھیں اور آپ غور کریں کہ تجارتی لبرلائزیشن کو دباؤ کا سامنا ہے، تو اس کے لیے ایک ایسا معاہدہ کیا جانا چاہیے جس میں عالمی جی ڈی پی کا ایک تہائی اور عالمی آبادی کا ایک تہائی حصہ اس میں شامل ہو۔ لبرلائزیشن کی سخت جانچ کی جارہی ہے جو کہ ایک اہم قدم ہے۔ بھارت کی اپنی معاشی ضروریات اور مفادات کے لحاظ سے میں امید کرتا ہوں کہ کسی وقت یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ معاہدے میں شامل ہونا، شامل نہ ہونے سے بہتر ہے۔ لہذا ہم پرامید ہیں کہ جلد ہی مستقبل میں کسی وقت ہم بھارت کو آر سی ای پی معاہدے میں شامل ہوتے دیکھ سکیں گے۔'

متعدد ممالک کے ساتھ بھارت کے دو طرفہ ایف ٹی اے (آزاد تجارت کے معاہدوں) کے بارے میں جاری جائزہ اور اس کے خلاف دلائل کے بارے میں پوچھے جانے پر ورگیز نے کہا کہ 'جب تجارت کو آزاد بنانے پر مذاکرات کیے جاتے ہیں تو اس معاملے میں بھارت اور آسٹریلیا کے مختلف عزائم ہیں'۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'بھارت کو مخلوط تجربہ حاصل ہے اور ایف ٹی اے مذاکرات میں شمولیت میں اس نے کمی لائی ہے۔ جبکہ آسٹریلیا میں ایف ٹی اے معیشت کے لیے ایک بہترین ٹول ہو سکتا ہے'۔

بھارت کے بغیر آر سی ای پی کمزور: پیٹر ورگیز

خیال رہے کہ ایسو سی ایشن آف ساؤتھ ایسٹ ایشین نیشنز (آسیان) کے 10 اراکین ممالک اور اس میں شامل شراکت داروں سمیت چین، جاپان، جنوبی کوریا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سمیت طویل مذاکرات کے بعد بھارت نے بینکاک میں منعقد ہوئے آسیان اجلاس کے دوران مجوزہ آر سی ای پی معاہدے سے خود کو باہر کر دیا۔

وزیر اعظم مودی نے تھائی لینڈ میں اپنی تقریر میں آر سی ای پی میں شامل نہ ہونے کے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ: 'آج جب ہم آر سی ای پی مذاکرات کے سات برسوں کے دوران اپنے آس پاس دیکھتے ہیں تو بہت ساری چیزیں، بشمول عالمی معاشی اور تجارتی منظرناموں میں تبدیلی آچکی ہے۔ ہم ان تبدیلیوں کو نظرانداز نہیں کرسکتے۔ آر سی ای پی معاہدے کی موجودہ شکل بنیادی روح اور آر سی ای پی کے متفقہ بنیادی اصولوں کی مکمل طور پر عکاسی نہیں کرتی ہے۔ اس میں بھارت کے بقیہ امور اور خدشات کو بھی اطمینان بخش انداز میں حل نہیں کیا گیا ہے۔ ایسی صورتحال میں بھارت کے لئے آر سی ای پی معاہدے میں شامل ہونا ممکن نہیں ہے'۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا آر سی ای پی کو ترک کرنا بھارت کے لئے امریکہ اور یورپی یونین کے ساتھ ایف ٹی اے پر جاری مذاکرات کے لئے مراعات کی پیش کش کرنا مشکل کردے گا تو وزارت خارجہ میں ایڈیشنل سکریٹری (اقتصادی ڈویژن اور ریاستوں) پی ہریش نے کہا کہ 'بھارت کو تمام 15 ممبران کے ساتھ تجارتی خسارے کا نقصان ہے جنہوں نے آر سی ای پی کے ساتھ اتفاق کیا ہے۔جبکہ بھارت کو امریکہ اور یوروپی یونین کے ساتھ تجارتی سرپلس کا فائدہ ہے۔'

'انڈین اکانومی اسٹریٹجی پیپر' 2035 تک آسٹریلیا اور بھارت کے مابین تجارت اور سرمایہ کاری کی شراکت داری کو تبدیل کرنے کا ایک نقشہ ہے۔ ورگیز نے آسٹریلیا کی حمایت کی کہ اس کی مختلف برآمدات کے پیش نظر زیادہ سے زیادہ انڈے بطور ایکسپورٹ بھارت کے مارکیٹ میں ڈال دئے جایئں گے۔

دریں اثنا ہریش نے یقین دہانی کرائی کہ جب بھارت کو معاشی سست روی کا سامنا ہے، اس صورت حال میں بھی بھارتی حکومت ہر شعبے کے خدشات کو دور کر رہی ہے جہاں حالیہ میں آٹوموبائل سے ریئل اسٹیٹ کی طرف توجہ مرکوز کی گئی ہے۔

پینل میں شامل سرکردہ شخصیات نے سیاحت اور کاروبار کو فروغ دینے کے لئے بھارت اور آسٹریلیا کے درمیان براہ راست ہوائی رابطے کی ضرورت پر زور دیا۔ دوطرفہ معاشی تعلقات کو فروغ دینے کے لئے کلیدی شعبوں میں توانائی ، قابل تجدید توانائی، فن ٹیک، انیمیشن گیمنگ، بینکنگ سلوشنز ، میڈیکل ٹیکنالوجی، جواہرات اور جیولری کی نشاندہی کی گئی ہے۔

بھارت میں آسٹریلیا کے لیے سابق ہائی کمشنر اور سابق سکریٹری ڈی ایف اے ٹی (محکمہ برائے امور خارجہ اور تجارت) پیٹر ورگیز نے آسٹریلیائی حکومت کے کمیشن کردہ 'انڈین اکانومی اسٹریٹجی پیپر' کو منظور کیا جو ایک برس قبل منظرعام پر آیا تھا۔

انڈین اکانومی اسٹریٹجی پیپر پر تبادلہ خیال کے لئے نئی دہلی میں سی آئی آئی کے زیرانتظام منعقدہ سیمینار میں ورگیز نے امید ظاہر کی کہ بھارت مستقبل میں آر سی ای پی میں شامل ہوگا۔

بھارت کے بغیر آر سی ای پی کمزور: پیٹر ورگیز

ورگیز نے زور دے کر کہا کہ 'اگر آپ اس وقت عالمی معاشی کے نقطہ نظر کو دیکھیں اور آپ غور کریں کہ تجارتی لبرلائزیشن کو دباؤ کا سامنا ہے، تو اس کے لیے ایک ایسا معاہدہ کیا جانا چاہیے جس میں عالمی جی ڈی پی کا ایک تہائی اور عالمی آبادی کا ایک تہائی حصہ اس میں شامل ہو۔ لبرلائزیشن کی سخت جانچ کی جارہی ہے جو کہ ایک اہم قدم ہے۔ بھارت کی اپنی معاشی ضروریات اور مفادات کے لحاظ سے میں امید کرتا ہوں کہ کسی وقت یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ معاہدے میں شامل ہونا، شامل نہ ہونے سے بہتر ہے۔ لہذا ہم پرامید ہیں کہ جلد ہی مستقبل میں کسی وقت ہم بھارت کو آر سی ای پی معاہدے میں شامل ہوتے دیکھ سکیں گے۔'

متعدد ممالک کے ساتھ بھارت کے دو طرفہ ایف ٹی اے (آزاد تجارت کے معاہدوں) کے بارے میں جاری جائزہ اور اس کے خلاف دلائل کے بارے میں پوچھے جانے پر ورگیز نے کہا کہ 'جب تجارت کو آزاد بنانے پر مذاکرات کیے جاتے ہیں تو اس معاملے میں بھارت اور آسٹریلیا کے مختلف عزائم ہیں'۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'بھارت کو مخلوط تجربہ حاصل ہے اور ایف ٹی اے مذاکرات میں شمولیت میں اس نے کمی لائی ہے۔ جبکہ آسٹریلیا میں ایف ٹی اے معیشت کے لیے ایک بہترین ٹول ہو سکتا ہے'۔

بھارت کے بغیر آر سی ای پی کمزور: پیٹر ورگیز

خیال رہے کہ ایسو سی ایشن آف ساؤتھ ایسٹ ایشین نیشنز (آسیان) کے 10 اراکین ممالک اور اس میں شامل شراکت داروں سمیت چین، جاپان، جنوبی کوریا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سمیت طویل مذاکرات کے بعد بھارت نے بینکاک میں منعقد ہوئے آسیان اجلاس کے دوران مجوزہ آر سی ای پی معاہدے سے خود کو باہر کر دیا۔

وزیر اعظم مودی نے تھائی لینڈ میں اپنی تقریر میں آر سی ای پی میں شامل نہ ہونے کے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ: 'آج جب ہم آر سی ای پی مذاکرات کے سات برسوں کے دوران اپنے آس پاس دیکھتے ہیں تو بہت ساری چیزیں، بشمول عالمی معاشی اور تجارتی منظرناموں میں تبدیلی آچکی ہے۔ ہم ان تبدیلیوں کو نظرانداز نہیں کرسکتے۔ آر سی ای پی معاہدے کی موجودہ شکل بنیادی روح اور آر سی ای پی کے متفقہ بنیادی اصولوں کی مکمل طور پر عکاسی نہیں کرتی ہے۔ اس میں بھارت کے بقیہ امور اور خدشات کو بھی اطمینان بخش انداز میں حل نہیں کیا گیا ہے۔ ایسی صورتحال میں بھارت کے لئے آر سی ای پی معاہدے میں شامل ہونا ممکن نہیں ہے'۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا آر سی ای پی کو ترک کرنا بھارت کے لئے امریکہ اور یورپی یونین کے ساتھ ایف ٹی اے پر جاری مذاکرات کے لئے مراعات کی پیش کش کرنا مشکل کردے گا تو وزارت خارجہ میں ایڈیشنل سکریٹری (اقتصادی ڈویژن اور ریاستوں) پی ہریش نے کہا کہ 'بھارت کو تمام 15 ممبران کے ساتھ تجارتی خسارے کا نقصان ہے جنہوں نے آر سی ای پی کے ساتھ اتفاق کیا ہے۔جبکہ بھارت کو امریکہ اور یوروپی یونین کے ساتھ تجارتی سرپلس کا فائدہ ہے۔'

'انڈین اکانومی اسٹریٹجی پیپر' 2035 تک آسٹریلیا اور بھارت کے مابین تجارت اور سرمایہ کاری کی شراکت داری کو تبدیل کرنے کا ایک نقشہ ہے۔ ورگیز نے آسٹریلیا کی حمایت کی کہ اس کی مختلف برآمدات کے پیش نظر زیادہ سے زیادہ انڈے بطور ایکسپورٹ بھارت کے مارکیٹ میں ڈال دئے جایئں گے۔

دریں اثنا ہریش نے یقین دہانی کرائی کہ جب بھارت کو معاشی سست روی کا سامنا ہے، اس صورت حال میں بھی بھارتی حکومت ہر شعبے کے خدشات کو دور کر رہی ہے جہاں حالیہ میں آٹوموبائل سے ریئل اسٹیٹ کی طرف توجہ مرکوز کی گئی ہے۔

پینل میں شامل سرکردہ شخصیات نے سیاحت اور کاروبار کو فروغ دینے کے لئے بھارت اور آسٹریلیا کے درمیان براہ راست ہوائی رابطے کی ضرورت پر زور دیا۔ دوطرفہ معاشی تعلقات کو فروغ دینے کے لئے کلیدی شعبوں میں توانائی ، قابل تجدید توانائی، فن ٹیک، انیمیشن گیمنگ، بینکنگ سلوشنز ، میڈیکل ٹیکنالوجی، جواہرات اور جیولری کی نشاندہی کی گئی ہے۔

Intro:Body:

RCEP Weak Without India - Former Top Australian Diplomat


Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.