بگووا چاول نے اپنے بچپن ہی میں سوڈان کو خیرآباد کہ دیا تھا۔ اب ان کی عمر 28 برس ہے۔ وہ ایک شاندار مصنف اور شاعرہ ہیں۔
انہوں نے بچپن میں مہاجرانہ زندگی گذاری ہے۔ بگووا چاول نے اپنی شاعری کے ذریعہ مہاجرین کی پیچیدہ زندگی کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
بگووا کا کہنا ہے کہ جب آپ کے پاس بے گھر اور غیر محفوظ ہونے کا تجربہ ہوتا ہے، تو آپ گھر سے متعلق بے فکر ہو جاتے ہیں۔ اور میں نے کبھی بھی بے گھر ہونے کا احساس نہیں کیا۔ کیوںکہ مجھے کبھی بھی اپنے گھر کا احساس ہی نہیں ہوا۔
اپنے مہاجرانہ دور کو بیان کرتے ہوئے بگووا نے بتایا کہ وہ اپنے قافلے کے ساتھ سرحد پار کر کے سب سے پہلے ایتھوپیا گئیں بعد ازاں کینیا اور جب وہ محض 11 برس کی تھیں تب انہوں نے بطور مہاجر آسٹریلیا کا رخ کیا۔
اب بگووا اپنی شاعری کے ذریعہ یہ کہنے کی کوشش کر رہی ہیں کہ بےگھر ہونے کا غم کیسا ہوتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ مہاجرانہ زندگی کا تجربہ بہت پیچیدہ اور مختلف ہے۔ مختلف قسم کے افراد مختلف ممالک، مختلف صلاحیتوں اور مذاہب کے لوگ ایک ہی کیمپ میں ایک ساتھ زندگی گذارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔