ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کے ترک فوجیوں کو لیبیا بھیجے جانے والے بیان پر لیبیا میں وسیع پیمانے پر غصے کی لہر پیدا ہو گئی ہے۔
اردگان کے اس بیان کو لیبیا کے امور میں مداخلت قرار دیا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی لیبیا پر ترکی کے حملے اور انقرہ کی جانب سے لیبیا کی خود مختاری پر اثر انداز ہونے کے خلاف مظاہروں کی دعوت بھی دی گئی ہے۔
اردگان کا کہنا ہے کہ لیبیا کی وفاقی حکومت کی درخواست پر ترکی اپنی افواج کو لیبیا میں بھیجنے کے لیے تیار ہے۔
لیبیائی وفاقی حکومت کے ساتھ ترکی کے معاہدے پر یورپین اور عرب ممالک کی سخت تنقید کے باوجود اردگان نے کہا کہ ترکی نے بین الاقوامی قانون کے تحت اپنا حق استعمال کرتے ہوئے لیبیا کے ساتھ بحری مفاہمتی یاد داشت پر دستخط کیے ہیں۔
ترکی کی جانب سے لیبیا میں عسکری مداخلت اور لیبیا کے کھاتے میں بحیرہ روم میں ترکی کی توسیع کی کوشش پر لیبیائی حلقوں نے سخت نکتہ چینی کی ہے۔
لیبیا اور ترکی کے درمیان سمجھوتا مبہم ہے اور ابھی تک اس کی تفصیلات کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ لیبیا کی قومی تنظیموں نے ترکی کے صدر کے بیان میں اپنے فوجیوں کو لیبیا بھیجنے کا عندیہ دینے کی مذمت کی ہے۔