عراق میں موصل کے رہائشی بتاتے ہیں کہ رواں برس عید کا ماحول پھیکا پڑ گیا ہے۔ گذشتہ برسوں کی طرح مغربی شہر کی دوکانوں پر گراہکوں کی چہل پہل نہیں دیکھی جا رہی ہے۔
مارکیٹ میں نظر آنے والے بیشتر افراد ایسے ہیں، جو ضروری چیزوں کی خریداری کے لیے گھروں سے باہر نکلے ہیں، تاکہ انتظامیہ کی جانب سے نافذ کیے گئے 10 دنوں کے کرفیو کے دوران گذر بسر کر سکیں۔
موصل کی ایک مارکیٹ میں دوکاندار ابو اشرف نے بتایا کہ فی الحال ہر کوئی کپڑے کے بجائے کھانا خرید رہا ہے۔ لوگ عید کی تیاریوں کے موڈ میں نہیں ہیں ، انہیں اشیائے خوردنی یکجا کرنے کی فکر ہے۔ اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔
ملک بھر میں معاشی بحران کی کیفیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری نوکری کرنے والے بھی کئی ماہ کی تنخواہوں سے محروم ہیں۔
روزانہ جزوی طور پر کرفیو کے سبب بہت ساری دوکانیں جلدی بند کر دی جاتی ہیں۔ ایسے میں دوکانداروں اور خوانچہ فروشوں کے لیے انتہائی مشکل گھڑی ہے۔
بسام علی نامی مقامی خوانچہ فروش نے بتایا کہ 'موصل میں چار ماہ سے کرفیو نافذ ہے۔ ہم اس سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ یہ شہر مزید کسی نقصان کو برداشت نہیں کر سکتا۔ اگر حکومت مجھے گھر پر رہنے کے لیے مجبور کرے گی تو اسے کچھ متبادل مثلا مشاہرہ یا کھانے پینے کی اشیاء مہیا کرانا ہو گا، تاکہ میں گھر پر رہ سکوں۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو موصل میں بھکمری جیسی دوسری وبا کا سامنا کرنا پڑے گا'۔
مسلمانوں کے لیے عید اور بقرعید دو تہوار بہت اہم سمجھے جاتے ہیں۔ اس موقع پر نئے کپڑے، قربانی اور دیگر چیزوں کا اہتمام کیا جاتا ہے، لیکن حالات نے لوگوں کو اس قدر مجبور کر دیا ہے کہ انہیں فی الحال کھانے پینے کی چیزیں یکجا کر لینا ہی سب سے اہم نظر آ رہا ہے۔