دنیا بھر میں صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ممالک میں پاکستان کا بھی نام شامل ہے۔ فریڈم نیٹورک کی رپورٹ کے مطابق سنہ 2000 سے اب تک پاکستان میں 140 صحافیوں کا قتل ہوا ہے۔
ڈان کے صحافی، وکیل اور سماجی کارکن آئی اے رحمن لکھتے ہیں کہ پاکستان میں صحافیوں کے خلاف قانونی مقدمے کی سماعت سے متعلق رواں برس کی رپورٹ ان تمام لوگوں کے لئے سخت پریشانی کا باعث ہوگی، جو بہتر حکومت اور سماجی ترقی کے لئے ایک مضبوط اور آزاد میڈیا کے وجود کو ضروری سمجھتے ہیں۔
رپورٹ میں ایک اہم بات کا انکشاف ہوا ہے کہ جو صحافی پرنٹ میڈیا میں کام کرتے ہیں، وہ الیکٹرانک میڈیا میں کام کرنے والے اپنے ساتھیوں سے دو گنا زیادہ خطرے میں ہیں۔ اس کے علاوہ سندھ خطے میں کام کرنے والے صحافی بقیہ دیگر ریاستوں میں کام کر رہے صحافیوں سے تین گنا زیادہ خطرے میں ہیں۔
پاکستان میں ایک تہائی صحافی ایسے ہیں، جن پر پینل کوڈ کے تحت مجرمانہ مقدمہ درج ہے، جبکہ دیگر ایک تہائی صحافیوں پر دہشت گردی سے متعلق چارج کا امکان ہے۔ اس کے علاوہ دیگر صحافی الیکٹرانک کرائم اور ہتک عزت کے تحت ٹرائل کا سامنا کر سکتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق صحافیوں پر کچھ عمومی الزامات لگائے جاتے ہیں۔ مثلا ' اداروں کے خلاف کام کرنا' یا 'ریاستی اداروں کو بدنام کرنا' اس کے علاوہ غیر قانونی ہتھیاروں یا دھماکہ خیز مواد رکھنا، ڈرگس سپلائی کرنا، ممنوعہ لٹریچر رکھنا یا عوام کو پریشان کرنا شامل ہے۔
صحافیوں سے متعلق دو تہائی معاملات میں پولیس نے تحقیقات مکمل کر لیا ہے۔ ان میں سے محض آدھے ایسے ہیں، جنہیں سماعت کے لیے درست قرار دیا ہے۔
مزید یہ کہ 60 فیصد مقدمات میں مقدمے کی سماعت کبھی بھی ختم نہیں ہوسکی، جس کی وجہ سے زیادہ تر صحافیوں کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا ہے۔
پاکستان میں 17 میں سے 10 مقدمے کبھی اپنے انجام تک نہیں پہنچ پاتے ہیں۔ اس طرح زیادہ تر صحافیوں کو کبھی بھی انصاف نہیں مل پاتا ہے۔
رحمن نے مزید لکھا کہ سنہ 2018 2019 میں زیادہ تر قوانین کا استعمال صحافیوں کو پریشان کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔
گذشتہ برس کی تحقیقات میں بتایا گیا تھا کہ 33 صحافیوں کے قاتلوں کو 100 فیصد معافی اور مقتول صحافیوں کو صفر فیصد انصاف ملا ہے۔
اس کے علاوہ میڈیا ہاوسز کو بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، کیوں کہ ان کی آمدن کم ہوتی جا رہی ہے، حکومت کی جانب سے ملنے والے سرکاری اشتہارات میں تفریق برتنے کے ساتھ غیر قانونی طریقے سے مخصوص علاقوں میں کچھ اخبارات کے سرکولیشن میں روکاوٹ پیدا کی جا رہی ہے۔