ملالہ یوسف زئی اور پشاور آرمی اسکول پر حملوں کے ذمہ دار عسکریت پسند احسان کی 7 فروری کو فوجی حراست سے فراری کے بعد حکومت پر عوامی دباؤ میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
عسکریت پسند کی فراری کے فوری بعد پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے آئی ایس آئی کے ڈائرکٹر جنرل سے ملاقات کی تھی جس پر عوام نے شدید تنقید کی تھی۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ احسان نے پراسرار طور پر 2017 میں خود کو فوج کے حوالہ کردیا تھا اور تین سال سے وہ فوجی تحویل میں تھا لیکن ابھی تک پاک فون نے اس کے خلاف چارج شیٹ تک داخل نہیں کی ہے۔
واضح رہے کہ گذشتہ جمعرات کو جاری کردہ ایک آڈیو پیام میں احسان نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ 11 جنوری کو ہی فوج کی تحویل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا تھا۔