ETV Bharat / international

Pakistan Taliban Relation: 'پاکستان طالبان کی کارروائی کا ذمہ دار نہیں'

author img

By

Published : Jul 29, 2021, 8:21 PM IST

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ دنیا کے تمام ممالک سے بڑھ کر پاکستان، افغانستان میں امن چاہتا ہے کیوں کہ وہاں امن کی صورت میں پاکستان کا وسط ایشیائی ممالک سے رابطہ ہوگا۔

Pak PM Imran khan
Pak PM Imran khan

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ افغانستان سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مسلسل واپسی کے بعد طالبان کے اقدامات کے لئے ان کے ملک کو ’ذمہ دار‘ نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔

عمران خان نے افغان میڈیا کے نمائندے کو دیئے گئے ریمارکس میں کہا کہ ”طالبان جو کچھ کر رہے ہیں یا نہیں کر رہے ہیں اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔”ہم ذمہ دار نہیں اور نہ ہی طالبان کے ترجمان ہیں۔“

عمران خان نے پاکستان کو افغانستان کے واقعات سے دور کرتے ہوئے کہا کہ ”ہم صرف افغانستان میں امن چاہتے ہیں۔“

انہوں نے کہا کہ افغانوں کے پاس اختیار ہے کہ وہ امریکی حمایت یافتہ فوجی حل یا ایک جامع حکومت کے ساتھ سیاسی سمجھوتہ کریں۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے ہماری حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ افغان عوام جسے منتخب کریں گے ہمارے اس کے ساتھ بہترین تعلقات ہوں گے، ہمارا کوئی پسندیدہ نہیں ہے اور نہ ہی نوے کی دہائی کی طرح اب افغانستان میں اسٹریٹجک ڈیپتھ جیسی کوئی پالیسی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں افغانستان گیا ہوں، افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ میرے اچھے تعلقات ہیں اور ہمارے باہمی تعلقات بھی اچھے ہیں لیکن افغان رہنماؤں کے حالیہ بیانات میں افغانستان کی صورتحال کا الزام پاکستان پر لگایا گیا، جو بڑی بدقسمتی کی بات ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ طالبان کو پہلے امریکہ کے ساتھ اور پھر افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کے لیے مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے پاکستان سے زیادہ کسی ملک نے دباؤ نہیں ڈالا، ہم نے اپنی بھرپور کوشش کی اور کسی ملک نے اتنی محنت نہیں کی جتنی ہم نے کی۔

وزیراعظم نے کہا کہ اس بات کی تصدیق امریکہ کے نمائندۂ خصوصی زلمے خلیل زاد نے بھی کی ہے۔

افغانستان میں کھیل کی سرگرمیوں کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ گزشتہ 3 سال کے دوران میرے پاس کھیلوں کے لیے وقت نہیں تھا کیوں کہ دیگر مسائل تھے لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ کرکٹ کی تاریخ میں جتنے کم وقت میں افغانستان میں بہتری آئی وہ کسی اور ملک کی ٹیم میں نہیں آئی۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان جس مقام پر پہنچ چکا ہے وہاں تک پہنچنے کے لیے دیگر ممالک کو 70 برس لگے ہیں، افغانوں نے بنیادی طور پر مہاجر کیمپوں میں کرکٹ سیکھا جو قابل ستائش ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ میری حکومت کی خارجہ پالیسی گزشتہ 25 برسوں سے میری پارٹی کے منشور کا حصہ ہے اور میرا ہمیشہ یہ مؤقف رہا ہے کہ افغانستان کا کوئی عسکری حل نہیں ہے، ہماری جانب سے ہمیشہ کہا گیا کہ بالآخر افغانستان کا مسئلہ سیاسی تصفیے کے ذریعے حل ہوگا، میری حکومت کا 3 سال سے یہی مؤقف ہے جو میں 15 برسوں سے کہہ رہا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو پاک فوج کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ دنیا کے تمام ممالک سے بڑھ کر پاکستان، افغانستان میں امن چاہتا ہے کیوں کہ وہاں امن کی صورت میں پاکستان کا وسطی ایشیائی ممالک سے رابطہ ہوگا۔

انہوں نے کہا ہم نے ازبکستان کے ساتھ مزار شریف-پشاور ریلوے لائن کے لیے پہلے ہی سمجھوتہ کیا ہوا ہے اس لیے ہمارے مستقبل کی تمام اقتصادی حکمت عملیوں کا انحصار افغانستان میں امن سے منسلک ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام افغان عوام کو پڑوسیوں کے بجائے بھائی سمجھتے ہیں جنہوں نے 40 سال مشکلات برداشت کی ہیں، اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان کو امن کی اشد ضرورت ہے۔

عمران خان نے کہا کہ اگر افغان حکومت اور طالبان کے درمیان خانہ جنگی جاری رہتی ہے تو اس کے اثرات پاکستان کے قبائلی اضلاع پر پڑیں گے اور جب ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حصہ لیا اس کے نتیجے میں جنگ کے اثرات ہمارے قبائلی اضلاع پر آئے اور 70 ہزار پاکستانیوں کی جانیں ضائع ہوئیں۔

اور آخری چیز جس کا ہمیں خدشہ ہے وہ یہ کہ اگر یہ خانہ جنگی طویل المدتی ہوئی تو پاکستان میں منتقل ہوگی، پاکستان میں پہلے ہی 30 لاکھ افغان مہاجرین مقیم ہیں اور شورش کے نتیجے میں مزید آئیں گے اور پاکستان کی اقتصادی صورتحال مزید افغان مہاجرین برداشت نہیں کرسکتی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس لیے افغانستان کے سیاسی حل کے لیے پاکستان اپنی ہر ممکن کوشش کررہا ہے۔

’ہم طالبان کی کارروائیوں کے ذمہ دار اور ان کے ترجمان نہیں‘

ایک سوال کے جواب میں پاکستان کے وزیر اعظم نے کہا کہ افغانستان میں طالبان جو کچھ کررہے ہیں اس کا ہم سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ آپ کو طالبان سے اس بارے میں بات کرنی چاہیے کہ وہ کیا کررہے ہیں، ہم اس کے ذمہ دار نہیں ہیں اور نہ ہی ہم طالبان کے ترجمان ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 2 راستے ہیں، 20 سال تک افغانستان میں امن کے لیے عسکری حل کی کوشش کی جاتی رہی جو ناکام ہوگئی، دوسرا ایک جامع حکومت بنائی جائے جو واحد ہے، ہم صرف افغانستان میں امن چاہتے ہیں، پاکستان میں 30 لاکھ افغان مہاجرین مقیم ہیں اور تقریباً تمام پشتون ہیں جن میں سے اکثریت طالبان کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ روزانہ تقریباً 25 سے 30 ہزار افغان مہاجرین افغانستان آتے اور جاتے ہیں تو پاکستان کس طرح یہ چیک کرسکتا ہے وہاں کون لڑنے کے لیے جارہا ہے لیکن پاکستان مستقل یہ کہہ رہا ہے کہ اگر تمام افغان مہاجرین اپنے ملک واپس چلے جائیں تو ہمیں ذمہ دار ٹھہرا سکتے ہیں لیکن جب 30 لاکھ موجود ہوں اور چند سو افغانستان لڑنے کے لیے جائیں اور ان کی لاشیں واپس پاکستان آئیں تو ہمیں کیسے ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: Imran Khan: طالبان کوئی فوجی تنظیم نہیں بلکہ عام شہری ہیں، عمران خان کا بیان

انہوں نے کہا کہ 5 لاکھ افراد کے مہاجر کیمپ موجود ہیں تو ہم کیسے ان مہاجر کیمپوں میں جائیں اور فیصلہ کرے کہ کون طالبان کا حامی ہے کون نہیں، پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد برائے نام تھی اس لیے پاکستان سے جانے اور آنے والوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ہم نے بھاری لاگت سے سرحد پر باڑ لگائی ہم سرحد پر نقل و حرکت کنٹرول کرنے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔

(یو این آئی)

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ افغانستان سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مسلسل واپسی کے بعد طالبان کے اقدامات کے لئے ان کے ملک کو ’ذمہ دار‘ نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔

عمران خان نے افغان میڈیا کے نمائندے کو دیئے گئے ریمارکس میں کہا کہ ”طالبان جو کچھ کر رہے ہیں یا نہیں کر رہے ہیں اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔”ہم ذمہ دار نہیں اور نہ ہی طالبان کے ترجمان ہیں۔“

عمران خان نے پاکستان کو افغانستان کے واقعات سے دور کرتے ہوئے کہا کہ ”ہم صرف افغانستان میں امن چاہتے ہیں۔“

انہوں نے کہا کہ افغانوں کے پاس اختیار ہے کہ وہ امریکی حمایت یافتہ فوجی حل یا ایک جامع حکومت کے ساتھ سیاسی سمجھوتہ کریں۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے ہماری حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ افغان عوام جسے منتخب کریں گے ہمارے اس کے ساتھ بہترین تعلقات ہوں گے، ہمارا کوئی پسندیدہ نہیں ہے اور نہ ہی نوے کی دہائی کی طرح اب افغانستان میں اسٹریٹجک ڈیپتھ جیسی کوئی پالیسی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں افغانستان گیا ہوں، افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ میرے اچھے تعلقات ہیں اور ہمارے باہمی تعلقات بھی اچھے ہیں لیکن افغان رہنماؤں کے حالیہ بیانات میں افغانستان کی صورتحال کا الزام پاکستان پر لگایا گیا، جو بڑی بدقسمتی کی بات ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ طالبان کو پہلے امریکہ کے ساتھ اور پھر افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کے لیے مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے پاکستان سے زیادہ کسی ملک نے دباؤ نہیں ڈالا، ہم نے اپنی بھرپور کوشش کی اور کسی ملک نے اتنی محنت نہیں کی جتنی ہم نے کی۔

وزیراعظم نے کہا کہ اس بات کی تصدیق امریکہ کے نمائندۂ خصوصی زلمے خلیل زاد نے بھی کی ہے۔

افغانستان میں کھیل کی سرگرمیوں کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ گزشتہ 3 سال کے دوران میرے پاس کھیلوں کے لیے وقت نہیں تھا کیوں کہ دیگر مسائل تھے لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ کرکٹ کی تاریخ میں جتنے کم وقت میں افغانستان میں بہتری آئی وہ کسی اور ملک کی ٹیم میں نہیں آئی۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان جس مقام پر پہنچ چکا ہے وہاں تک پہنچنے کے لیے دیگر ممالک کو 70 برس لگے ہیں، افغانوں نے بنیادی طور پر مہاجر کیمپوں میں کرکٹ سیکھا جو قابل ستائش ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ میری حکومت کی خارجہ پالیسی گزشتہ 25 برسوں سے میری پارٹی کے منشور کا حصہ ہے اور میرا ہمیشہ یہ مؤقف رہا ہے کہ افغانستان کا کوئی عسکری حل نہیں ہے، ہماری جانب سے ہمیشہ کہا گیا کہ بالآخر افغانستان کا مسئلہ سیاسی تصفیے کے ذریعے حل ہوگا، میری حکومت کا 3 سال سے یہی مؤقف ہے جو میں 15 برسوں سے کہہ رہا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو پاک فوج کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ دنیا کے تمام ممالک سے بڑھ کر پاکستان، افغانستان میں امن چاہتا ہے کیوں کہ وہاں امن کی صورت میں پاکستان کا وسطی ایشیائی ممالک سے رابطہ ہوگا۔

انہوں نے کہا ہم نے ازبکستان کے ساتھ مزار شریف-پشاور ریلوے لائن کے لیے پہلے ہی سمجھوتہ کیا ہوا ہے اس لیے ہمارے مستقبل کی تمام اقتصادی حکمت عملیوں کا انحصار افغانستان میں امن سے منسلک ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام افغان عوام کو پڑوسیوں کے بجائے بھائی سمجھتے ہیں جنہوں نے 40 سال مشکلات برداشت کی ہیں، اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان کو امن کی اشد ضرورت ہے۔

عمران خان نے کہا کہ اگر افغان حکومت اور طالبان کے درمیان خانہ جنگی جاری رہتی ہے تو اس کے اثرات پاکستان کے قبائلی اضلاع پر پڑیں گے اور جب ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حصہ لیا اس کے نتیجے میں جنگ کے اثرات ہمارے قبائلی اضلاع پر آئے اور 70 ہزار پاکستانیوں کی جانیں ضائع ہوئیں۔

اور آخری چیز جس کا ہمیں خدشہ ہے وہ یہ کہ اگر یہ خانہ جنگی طویل المدتی ہوئی تو پاکستان میں منتقل ہوگی، پاکستان میں پہلے ہی 30 لاکھ افغان مہاجرین مقیم ہیں اور شورش کے نتیجے میں مزید آئیں گے اور پاکستان کی اقتصادی صورتحال مزید افغان مہاجرین برداشت نہیں کرسکتی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس لیے افغانستان کے سیاسی حل کے لیے پاکستان اپنی ہر ممکن کوشش کررہا ہے۔

’ہم طالبان کی کارروائیوں کے ذمہ دار اور ان کے ترجمان نہیں‘

ایک سوال کے جواب میں پاکستان کے وزیر اعظم نے کہا کہ افغانستان میں طالبان جو کچھ کررہے ہیں اس کا ہم سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ آپ کو طالبان سے اس بارے میں بات کرنی چاہیے کہ وہ کیا کررہے ہیں، ہم اس کے ذمہ دار نہیں ہیں اور نہ ہی ہم طالبان کے ترجمان ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 2 راستے ہیں، 20 سال تک افغانستان میں امن کے لیے عسکری حل کی کوشش کی جاتی رہی جو ناکام ہوگئی، دوسرا ایک جامع حکومت بنائی جائے جو واحد ہے، ہم صرف افغانستان میں امن چاہتے ہیں، پاکستان میں 30 لاکھ افغان مہاجرین مقیم ہیں اور تقریباً تمام پشتون ہیں جن میں سے اکثریت طالبان کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ روزانہ تقریباً 25 سے 30 ہزار افغان مہاجرین افغانستان آتے اور جاتے ہیں تو پاکستان کس طرح یہ چیک کرسکتا ہے وہاں کون لڑنے کے لیے جارہا ہے لیکن پاکستان مستقل یہ کہہ رہا ہے کہ اگر تمام افغان مہاجرین اپنے ملک واپس چلے جائیں تو ہمیں ذمہ دار ٹھہرا سکتے ہیں لیکن جب 30 لاکھ موجود ہوں اور چند سو افغانستان لڑنے کے لیے جائیں اور ان کی لاشیں واپس پاکستان آئیں تو ہمیں کیسے ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: Imran Khan: طالبان کوئی فوجی تنظیم نہیں بلکہ عام شہری ہیں، عمران خان کا بیان

انہوں نے کہا کہ 5 لاکھ افراد کے مہاجر کیمپ موجود ہیں تو ہم کیسے ان مہاجر کیمپوں میں جائیں اور فیصلہ کرے کہ کون طالبان کا حامی ہے کون نہیں، پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد برائے نام تھی اس لیے پاکستان سے جانے اور آنے والوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ہم نے بھاری لاگت سے سرحد پر باڑ لگائی ہم سرحد پر نقل و حرکت کنٹرول کرنے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔

(یو این آئی)

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.