میانمار میں حالیہ فوجی تختہ پلٹ کے خلاف اور ملک کی رہنما آنگ سان سوچی کی جلد از جلد رہائی کے مطالبے پر ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ جس کے بعد ملک کے 30 شہروں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔
فوجی انتظامیہ نے یانگون اور منڈالیے میں پانچ یا اس سے زائد لوگوں کے اجتماع پر پابندی لگا دی ہے۔ تمام علاقوں میں رات 8 تا صبح 4 بجے تک کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے جو تا حکم ثانی جاری رہے گا اور لوگوں سے سختی سے کہہ دیا گیا ہے کہ وہ اس دوران گھروں سے نہ نکلیں۔
احتجاج کے دوران ہزاروں مظاہرین نے نعرے لگاتے ہوئے کہا کہ 'ہم فوجی آمریت نہیں چاہتے، ہم جمہوریت چاہتے ہیں'۔ تاہم تختہ پلٹ کرنے میں شامل فوجی افسران نے ابھی تک اس حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
اس سے قبل میانمار کے فوجی حکمرانوں نے ملک میں تختہ پلٹ کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں ہزاروں افراد کی شرکت کے پیش نظر ہفتہ کے روز انٹرنیٹ سروس بند کر دی تھی، جسے اتوار کے روز دوبارہ بحال کر دیا گیا تھا۔
فوج نے ٹویٹر اور انسٹاگرام جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر پابندی عائد کرنے کے فورا بعد ہی انٹرنیٹ سروس بند کر دی تھی۔ تاکہ لوگوں کو تختہ پلٹ کے خلاف احتجاج کرنے سے روکا جاسکے۔
یہ بھی پڑھیں: شمالی کوریا اور ایران کے درمیان میزائل پروگرام پر تعاون دوبارہ شروع: اقوام متحدہ
ایک رپورٹ کے مطابق، رنگون شہر میں عوامی جلسے یا بھیڑ پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اس کے باوجود بھی بھیڑ احتجاج میں شامل ہوئی اور مظاہرین نے 'فوجی آمریت مردہ باد' اور 'جمہوریت زندہ باد' کے نعرے لگائے۔
تاہم مظاہرین سے نمٹنے کے لیے پولیس کی ایک بڑی تعداد کو تعینات کر دیا گیا ہے اور شہر کے تمام اہم راستے بند کر دیے گئے ہیں۔
خیال رہے کہ یکم فروری کو میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد فوج نے ایک برس کے لیے میانمار کا کنٹرول اپنے قبضے میں لیتے ہوئے آنگ سان سوچی اور صدر کو حراست میں لے کر نظر بند کر دیا ہے۔
میانمار کے پہلے نائب صدر یو میانت سوی کو فوجی بغاوت کے بعد ملک کا قائم مقام صدر مقرر کیا گیا ہے۔