پاکستان مسلم لیگ نواز (مسلم لیگ ن) کی نائب صدر مریم نواز شریف نے وزیراعظم عمران خان کو بلوچستان میں کان کنی کے مزدورں کے قتل کے خلاف احتجاج کرنے والے شیعہ ہزارہ برادری کے مطالبات نہ ماننے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مریم نے کہا کہ خان نے آج اعتراف کیا ہے کہ وہ اپنی انا اور ضد کی وجہ سے کوئٹہ نہیں جارہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ 'قوم جاننا چاہتی ہے کہ کون سا مسئلہ ہے، جس نے آپ کو وہاں جانے اور اپنے سروں پر ہاتھ رکھنے سے روکا تھا۔ اگر اس کی وجہ کسی اور کی اطاعت ہوتی تو قوم جاننا چاہتی ہے کہ کیا اطاعت لوگوں کی زندگی سے زیادہ اہم ہے؟'
- 'بہنوں اور بیٹیوں کے غم'
انھوں نے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ اُن دکھی ماؤں، بہنوں بیٹیوں کے غم کا اندازہ کون لگا سکتا ہے جن کو جی بھر کے رونے کے لیے کوئی کندھا بھی نہیں ملا'۔
'میں کیسے بھول پاؤں گی غم میں آہیں بھرتی ان خواتین کو جو مجھ سے لپٹ کر دھاڑیں مار کر روئیں۔جن کے آنسؤں سے میرا کوٹ تر ہوگیا۔ آج ایک اورکربلا دیکھی ،غمِ حسین تازہ ہو گیا'۔
مریم نے خان کے ریمارکس کو 'انسانیت سے مبرا' قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ حکومت کی جانب سے یہ ایک بڑی ناکامی ہے۔
انہوں نے ذکر کیا 'جب میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کے مطالبات کیا ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ہمارے کوئی مطالبات نہیں ہیں، ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ وزیر اعظم یہاں آکر ہماری دلجوئی کرے اور ہمیں یقین دلائیں کہ اس طرح کے واقعات دوبارہ نہیں ہوں گے'۔
انہوں نے مزید الزام لگایا کہ وزیر اعظم کے پاس ڈرامے دیکھنے اور کتوں کے ساتھ کھیلنے کے لیے وقت ہے، لیکن ان کے پاس ہزارہ برادری کے دکھ اور غم میں شریک ہونے کا وقت نہیں تھا'۔
- اصلا واقعہ کیا ہے؟
واضح رہے کہ اتوار کے روز نامعلوم مسلح افراد نے کوئٹہ کے قریب مچھ قصبے میں کوئلے کی کان پر دھاوا بول دیا اور شیعہ اقلیتی برادری کے اراکین اور نسلی ہزاروں کو گھروں سے نکالا اور ان پر فائرنگ کردی۔
دولت اسلامیہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اس ہلاکت خیز حملے کے بعد علاقے میں مظاہرے پھوٹ پڑے اور متاثرہ افراد کے لواحقین نے جب تک حکومت ان کے مطالبات پر عملدرآمد نہ ہونے تک مردہ خانے کو دفنانے سے انکار کردیا۔
مظاہرین نے وزیر داخلہ شیخ رشید سمیت خان کی کابینہ کے اراکین کے ساتھ متعدد مذاکرات کیے ہیں، لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
- مزید پڑھیں: مسئلہ کشمیر پر بھارت کو فرانس کی حمایت
اس ضمن میں قومی کمیشن برائے انسانی کمیشن نے اندازہ لگایا ہے کہ 2004 سے لے کر اب تک دو ہزار سے زیادہ ہزارہ اقلیتوں کے شیعہ مسلم فرقے کے پیروکاروں کو نشانہ بنایا گیا۔