اس وقت ساری نظریں لداخ کی شمالی سرحدوں پر ٹکی ہوئی ہیں، جہاں اس وقت لائن آف ایکچیول کنٹرول (ایل اے سی) کے اندر داخل ہوئے چینی اور بھارتی فوجیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی ہیں۔ اُمید ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان یہ معاملہ پر امن طور پر حل ہوجائے گا۔ تاہم ایسا نہیں لگتا ہے کہ اس مسئلے کا کوئی فوری حل نکل آئے گا۔ سرحد پر رونما ہوئی اس صورتحال کے بارے میں پہلے ہی بہت کچھ لکھا جاچکا ہے، اس لئے میں اس تحریر میں صرف لائن آف ایکچیول کنٹرول (ایل اے سی) پر سرحدی نظام (بارڈر منیجمنٹ) کے موضوع پر بات کروں گا۔
سال 2019ء میں لائن آف ایکچیول کنٹرول (ایل اے سی) پر چینی فوج کی جانب سے دراندازی کے663 واقعات رونما ہوئے ہیں۔ اخبار ’’انڈین ایکسپریس‘‘ کے مطابق سال 2018ء میں چینی فوج نے 404 بار دراندازی کی تھی۔ عمومی طور پر ہم اس بات پر مطمئن ہیں کہ سنہ 1975ء سے اب تک لائن آف ایکچیول کنٹرول پر ایک بھی گولی نہیں چلی ہے۔ لیکن سرحد کے دونوں اطراف میں متضاد دعویداری کی وجہ سے کسی بھی وقت صبر کا پیمانہ چھلک سکتا ہے اور ایک غیر ارادی بحران پیدا ہوسکتا ہے۔ اس لئے وقت کا تقاضا ہے کہ بارڈر منیجمنٹ کے ضوابط کا وسیع پیمانے پر سر نو جائزہ لیا جائے تاکہ کشیدگی کو دُور کیا جاسکے اور لائن آف ایکچیول کنٹرول کا تقدس یقینی بنایا جاسکے۔
کرگل جنگ کے بعد کئی وزرا پر مشتمل ایک جائزہ کمیٹی نے قومی سلامتی اور بارڈر منیجمنٹ کے بعض پہلوئوں کا جائزہ لیا تھا۔ اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا: ’’اس وقت ایسی کئی مثالیں دیکھنے کو مل رہی ہیں کہ ایک ہی سرحد پر کئی طرح کے فورسز تعینات ہیں اور جس کی وجہ سے آئے دن اِن فورسز کے درمیان کمانڈ اینڈ کنٹرول کے معاملے پر اختلافات ابھر کر سامنے آجاتے ہیں۔ ایک ہی سرحد پر کئی فورسز کو تعینات کرنے کی وجہ سے جواب دہی کا عمل بھی متاثر ہوجاتا ہے۔ جوابدہی کے عمل کو یقینی بنانے کےلئے سرحد پر تعیناتی کے حوالے سے ’ایک سرحد ایک فورس‘ کا اصول اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
اِس وقت لائن آف ایکچیول کنٹرول پر آرمی اور انڈو تبتئن بارڈر پولیس (آئی ٹی بی پی) تعینات ہے اور دونوں فورسز ایک ہی کام یعنی پٹرولنگ، نگرانی اور دراندازی کی کوششوں سے نمٹنے کا کام انجام دے رہی ہیں۔
بارڈر منیجمنٹ کی ذمہ داری آئی ٹی بی پی کی ہے جبکہ کسی محاذ آرائی جیسے کہ دیپسنگ، چُمر اور ڈوکلام میں دیکھنے کو ملی تھی، یا پھر جیسی محاذ آرائی اِس وقت رونما ہوچکی ہے، اس سے نمٹنے کا کام انڈین آرمی کا ہے۔ لائن آف ایکچیول کنٹرول پر چینی فوج کے ساتھ تمام اقسام کی میٹینگیں خواہ وہ رسمی ہوں یا بحرانی صورتحال میں کی جارہی ہوں، میں آرمی افسران ہی شرکت کرتے ہیں۔
فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ ایک متنازعہ سرحد (ایل اے سی) پر دو ایسی مختلف فورسز تعینات ہیں، جو دو الگ الگ وزارتوں کے سامنے جوابدہ ہیں ۔ دونوں فورسز کی صلاحتیں جداگانہ ہیں اور دونوں کے پاس الگ الگ وسائل ہیں۔ اس صورتحال کی وجہ سے جوابدہی کے عمل میں گڑبڑ دیکھنے کو ملتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ متنازعہ سرحد کی ذمہ داری آرمی، جس کے پاس پیچیدہ صورتحال سے نمٹنے کی بڑی صلاحیت ہے، اس کو تفویض کی جاتی اور آئی ٹی بی پی کو آرمی کے زیر نگران رکھا جاتا۔ اس طرح کا طریقہ کار پہلے ہی پاکستان کے ساتھ لگنے والے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر بھی موجود ہے۔ لائن آف کنٹرول پر بی ایس ایف آرمی کے زیر کنٹرول ہے۔
ہمیں سرحد پر وسیع پیمانے کی نگرانی کی صلاحتیں بڑھانے کے لئے بھی سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ چونکہ لائن آف ایکچیول کنٹرول ایک دشوار گزار علاقہ ہے اور یہاں کے موسمی حالات بھی ناموافق ہیں، اس لئے ہم جسمانی طور پا اُس حد تک اس علاقے کی نگرانی کرنے سے قاصر ہیں، جس حد تک کی نگرانی کی ضرورت ہے۔
جنوری 2018ء میں اطلاع ملی تھی کہ چین اروناچل پردیش کے ٹوٹنگ علاقے میں لائن آف ایکچیول کنٹرول پر 1.25 کلو میٹر طویل سڑک بنا رہا ہے۔ یہ علاقہ دور دراز ہونے کی وجہ سے یہ بات ہماری نوٹس میں اُس وقت آگئی جب ایک مقامی نوجوان نے ہمیں اس کی اطلاع دی۔ اس طرح کی صورتحال کے پیش نظر ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سرحدی نگرانی کےلئے الیکٹرانک نیٹ ورک قائم کریں۔ اس نظام میں ہم راڈار، طویل فاصلے کی عکس بندی کرنے والے کیمروں اور ریڈیو مانیٹرنگ آلات کا استعمال کرسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ فضائی نگرانی اور سیٹلائٹ تصویر کشی کے نظام کا استعمال کرسکتے ہیں۔
لائن آف ایکچیول کنٹرول پر مربوط اور فوری کارروائی کے لئے ضروری ہے کہ ہم ایل اے سی کے اُس پار فورسز کی کسی بھی غیر معمولی نقل و حرکت سے فوری طور پر باخبر ہوجانے کی پوزیشن میں ہیں۔ کیونکہ ایک بار جب چینی فوج لائن آف ایکچیول کنٹرول عبور کرلیتے ہیں، اُس کے بعد ہم ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہوجائیں گے۔ اس طرح کی صورتحال کا سامنا ہمیں اِس وقت پینگانگ جھیل کے پاس کرنا پڑرہا ہے۔
یہ بھی ضروری ہے کہ بھارت اور چین لائن آف ایکچیول کنٹرول کے انتظامی ضوابط کا از سر نو جائزہ لیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان ایسے کئی معاہدے ہوئے ہیں، جن کا تقاضا ہے کہ لائن آف ایکچیول کنٹرول پر صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے، طاقت کا استعمال نہ کرنے اور کسی بھی اشتعال انگیز کارروائی سے گریز کرنے کے متقاضی ہیں۔ اگرچہ یہ معاہدے پوری طرح ناکام ثابت نہیں ہوئے ہیں لیکن زمینی صورتحال یہ ہے کہ طے شدہ ضوابط کے تقدس کو پامال کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں سپاہی ایک دوسرے کو گالیاں دینے اور ہاتھا پائی جیسے حیران کن ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
ہم متنازعہ علاقوں میں پٹرولنگ کےلئے کچھ ضوابط طے کرسکتے ہیں۔ اس میں مشترکہ پیٹرولنگ جیسا نظام بھی شامل ہوسکتا ہے۔ تمام متنازعہ علاقوں کے حوالے سے کوئی فیصلہ کرنا آسان کام نہیں ہے لیکن دونوں ممالک کے افواج کا ایک دوسرے کا آمنا سامنا روکنے کے نتیجے میں لائن آف ایکچیول کنٹرول پر قدرے سکون قائم کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ سپاہیوں کے لئے سخت قواعد و ضوابط مقرر کئے جاسکے ہیں۔ وردی میں ملبوس سپاہیوں کو ہاتھوں میں لاٹھیاں لئے ہوئے دیکھنا ایک ہولناک منظر ہے۔
شمالی سرحد پر کشیدگی دونوں بھارت اور چین کےلئے نقصان دہ ہے۔ تاہم محض کشیدگی کا خدشہ چینی فوج کو لائن آف ایکچیول کنٹرول سے متعلق ہماری مینجمنٹ میں پائی جانی والی خامیوں سے فائدہ اٹھانے سے نہیں روک سکتا ہے۔ ہمیں خود ان خامیوں کو جلد ٹھیک کرنا پڑے گا۔